Posts

Showing posts from January, 2020

آئرلینڈ یاترا۔۔۔8

آئرلینڈ یاترا۔۔۔8 ڈبلن شہر چونکہ آئرلینڈ کے تاریخی ورثے کا امین ہے اس لیے یہاں کی تاریخی عمارتوں اور مقامات کو اختصار کے ساتھ متعارف کرانا چاہوں گا جن کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ڈبلن کیسل:   شہر ڈبلن میں دریائے لیفی اور پوڈل کے سنگم میں واقع ڈبلن کیسل کی تعمیر انگلینڈ کے کنگ جان کے حکم پر  1204 ع کو شروع ہوکر 1230 میں مکمل ہوئی تھی۔ اسے دفاعی ضرورت کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔  یہ ایک مضبوط چاردیواری کے اندر مستطیل قلعہ تھا جس کےچاروں کونوں پر گول ٹاورز تھے۔ بعد میں اس کے اندر پتھر اور لکڑی کا بڑا اور شاندار ہال تعمیر کیا گیا جو پارلیمنتمٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتا رہا یہاں تک کہ 1673 میں آتشزدگی کے باعث تباہ ہوا۔ جسے بعد میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ سینٹ پیٹرک ہال اس کی سب سے زیادہ پرشکوہ عمارت ہے جس میں آجکل بیرونی معزز مہمانوں کی ضیافتیں ہوتی ہیں اور ہر ساتواں سال آئرلینڈ کے نو منتخب صدر کی حلف برداری کی تقریب بھی یہاں منعقد ہوتی ہے۔ اس تاریخی ہال میں جن جن اہم شخصیات کو ضیافتیں دی گئی ہیں ان کے نام اور سن قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں لکھے جاتے ہیں۔ بنجامن فرینکلن

آئرلینڈ یاترا۔۔۔7

سفر کی تھکاوٹ سے نجات پانے کے بعد ڈبلن شہر اور اس میں موجود قابل دید تاریخی مقامات کی سیر شروع کی۔ سب سے پہلے ہم  اس کے بازاروں میں گھومے جو ہماری طرح بے ترتیب نہیں ہیں۔ کھلی سڑکوں کے اطراف میں دس بارہ فٹ چوڑی پگڈنڈیاں جہاں آپ کو کوئی ریڑھی بان یا ہاکر نظر نہیں آئے گا۔ کسی دکاندار کا سامان اس پر ناجائز قابض نہیں ملےگا۔ کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے آپ کا راستہ نہیں روکے گا۔ پیدل چلنے والوں کے لیے کسی قسم کی معمولی رکاوٹ بھی نہیں ملے گی۔ جگہہ جگہہ پیدل کراسنگ کے نشانات واضح نظر آئیں گے سامنے سڑک پر لکھا ہوگا کہ look to the left or right اور ساتھ ٹریفک لائٹ کا اشارہ بھی موجود ہوگا جس کی کوئی پیدل آدمی یا گاڑی والا خلاف ورزی نہیں کرےگا۔ اور پھر ایک سیدھ میں قائم تین یا چار منزلہ خوبصورت عمارتیں جو رنگ و روغن اور قدوقامت کے لحاظ سے ایک جیسی ہیں، دعوت نظارہ دیتی رہیں گی۔ انہی عمارتوں کی نچلی منزلوں کے اندر بڑے بڑے اسٹورز ہیں جن کا باہر والا حصہ پورا شیشے کا ہوتا ہے اور جو ہر جنس کے لیے الگ الگ ہیں۔ ان میں داخل ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا ایک چھوٹا سا شہر ہو جس کے اندر ایک خوبصورت دنیا آباد ہو۔

مزار حضرت رومی علیہ رحمہ

Image
جلال الدین رومی۔ رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا کے مزار اور میوزیم کے بارے لکھنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا کی مختصر حالات زندگی کا تعارف ہوجائے۔ حضرت مولانا جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ جو افغانستان اور ایران میں جلال الدین بلخی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، 30 ستمبر 1207 کو موجودہ افغانستان کے بلخ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا بہاوالدین ولد اپنےزمانے کے بڑے عالم و فاضل، مفتی اور نا معلوم سلسلہ کے صوفی بزرگ تھے۔ بلخ اور گردو نواح میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ تیرھویں صدی عیسوی کی دوسری دھائی کے دوران منگولوں کے یلغار کے خوف سے  بلخ سے اپنے بال بچوں سمیت ہجرت کرکے رومن اناطولیہ کے شہر قونیہ آکر بس گئے۔ اسی نسبت سے حضرت جلال الدین رومی کہلانے لگے۔  رومی کے والد بہاوالدین ولد کی تصنیف  'معارف"جو ان کے روزنامچہ، مواعظ اور روحانی بصیرتی تجربات کا مجموعہ تھی جس میں انہوں نے خدا کے ساتھ روحانی قربت کا برملا تذکرہ کیا تھا بہت سے روایتی علماء کے لیے صدمے کا باعث بنی۔ حضرت جلال الدین کو ان کے والد کے سابق شاگرد برہان الدین محقق نے ان کے والد کی خفیہ  روحانی زندگی کی ط

آئرلینڈ یاترا۔۔۔6

  پرلطف دعوت  ہمارا خیال نہیں تھا کہ ہم آئرلینڈ میں اپنے بچوں کے علاؤہ کسی دوسرے پاکستانی کی محفل میں بیٹھ سکیں گے۔ ہمارا خیال غلط نکلا جب اگلے دن ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے ہمیں بتایا کہ 25 دسمبر کو ان کے ایک سینیئر ماہر امراض چشم ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے پہلے ہی سے ہمیں اپنے گھر دعوت دے رکھی یے۔ اول تو ذرا ہچکچایا شاید ابھی تک لمبے سفر اور قطریوں کے سلوک کی تھکاوٹ دور نہیں ہوئی تھی۔  پھر ہم نے سوچا کہ جب دنیا کے اس کونے میں کوئی اہل وطن پیار سے کھانے پربلا رہا ہے تو انکار کفران نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا ہم نے ہاں کردی۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے ڈاکٹر عزیز  صاحب خود ہی ہمیں لینے پہنچ گئے۔ ان سے مل کر خوشی ہوئی کہ آدمی ایک سیدھا سادہ پختون تھا۔ مجھے ایسا ملا کہ جیسا کہ بہت پرانی شناسائی ہو۔ میں عام طور پر اپنے دوست پختونوں سے کہا کرتا تھا کہ آدمی اگر صحیح معنوں میں پٹھان ہے تو وہ سچا مسلمان بھی ہوگا کیونکہ پٹھان دوستی اور وعدے کا پکا ہوتا ہے۔ انتہائی مہمان نواز ہوتا ہے۔ دشمنی بھی کرے تو کھل کر کرتا ہے۔ اس میں منافقت نہیں ہوتی۔ اگر کسی پختون میں یہ اوصاف مفقود ہیں تو وہ نہ پٹھان یو سکتا ہے اور

آئرلینڈ یاترا۔۔۔5

ننھا سیاح ہم جب ستر سال کی عمر میں جہاں گردی کا مزہ لے رہے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وساطت سے ہمیں اپنی تخلیق کی وسیع دنیا دیکھنے کا موقع دیا۔ تو ایک تین سال کا بچہ اپنی عمر کے اٹھارھواں مہینے سے دنیا دیکھنے کا آغاز کرے اور تیسری سالگرہ تک درجنوں ممالک کی سیر کرے تو وہ ہوش سنبھالتے ہی  ضرور شکر خداوندی ادا کرے گا۔ اس کچی عمر میں گو کہ ہمارا خیال ہوتا ہےکہ وہ جو دیکھ، سن اور محسوس کر رہا ہے اسےیاد بھی رکھ پائے گا کہ نہیں؟ ہم اپنے بچپن کے واقعات کا جب سوچتے ہیں تو ہمیں بعض واقعات اس طرح یاد آتے ہیں جیسا کہ کل کا واقعہ ہو۔ ہمارا زمانہ تو ایک طرح سے تاریکی کا دور تھا۔ آج کی طرح حفظان صحت کے اصولوں پر عمل تھا اور نہ پری سکول ذہنی تربیت کا کوئی تصور تھا۔  جسمانی صفائی اور ہائی جین کی حالت نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر بھی اگر ہمیں ڈیڑھ دو سال کی عمر کی یادیں لاشعور میں محفوظ ملتی ہیں تو آج کے بچے ان جدید ترین سہولیات کی موجودگی میں ہم سے کئی گنا زیادہ ذہنی وسعت اور مضبوطی کے حامل ہوں گے۔ اس لیے وہ ہر واقعہ، مشاہدہ اور من

آئرلینڈ یاترا۔۔۔4

آئرلینڈ یاترا۔۔۔4 ڈبلن شہر ڈبلن آئرلینڈ کا سب سے بڑا شہر  اور اس کا دارالحکومت  ہے۔ یہ آئرلینڈ کے مشرقی ساحل پر دریائے لیفی کے دھانے پر واقع ہے۔ خاص شہر کا رقبہ 115 اور شہری علاقے کا رقبہ 318 مربع کلومیٹر اور آبادی پونے بارہ لاکھ ہے۔ یہ بحیثیت شہر 988 عیسوی سے وجود رکھتا ہے۔ 1988 میں ڈبلن والوں نے اس کا ہزار سالہ جشن منایا تھا۔ جبکہ اسکی اولین انسانی آبادی قبل از تاریخ بتائی جاتی ہے۔ یہاں کی اولین آبادی سے متعلق ماہر فلکیات اور نقشہ نگار Potelmy  (140AD) نے یہاں البانا Elbana  نام کی بستی کی نشاندھی کی تھی جسے بعد کے محققین نے  Deblana قرار دیا جو Dubh Linn  کی بگاڑ ہے اور جو آئرش زبان میں "سیاہ جوہڑ" کو کہتے ہیں۔ پوٹالمی کے مطابق یہاں انسانی آبادی کی تاریخ دوہزار سال پرانی ہے۔  گئیلز Gaels قوم یعنی مقامی باشندوں نے ساتویں صدی عیسوی میں ڈبلن کو شہر کے حیثیت دی تھی۔ 841 میں وائکنگز نے اسے فتح کیا اور  اسے وسعت دی۔  1169 تک ان کے قبضے میں رہا۔ وائکنگز لٹیرے اور قزاق تھے جو انگلستان، سکاٹ لینڈ وغیرہ میں لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ نیز بردہ فروشی بھی ان کا پیشہ تھا۔ بچوں اور عورتوں کو

آئرلینڈ یاترا۔۔۔3

آئرلینڈ یاترا۔۔۔ 3 اب جب کہ ہم آئرلینڈ پہنچ گئے ہیں تو چلیے پہلے اس ملک کے محل وقوع اور باشندوں کی تاریخ  کے بارے تھوڑی جان کاری ہو جائے۔ لہذا ہم پہلے انتہائی اختصار کے ساتھ یہ بتائیں گے کہ آئرلینڈ کہاں واقع ہے اور اس کے باسیوں کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور وہ کن کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں؟ آئرلینڈ براعظم یورپ میں تیسرا بڑا جزیرہ ہے جو یورپ کے شمال مغرب میں اور بحر اوقیانوس کے شمال مشرق میں واقع ہے۔  Irish sea اسے انگلینڈ  اور بحر کلٹک Celtic sea  اسے یورپ سے جدا کرتا ہے. اس کا رقبہ کم و بیش 84 ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی اونچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔  اس کا نشیبی وسطی علاقہ میدانی ہے جس کے گرداگرد ساحلی پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس کا مغربی ساحلی حصہ ناہموار پہاڑی گھاٹیوں اور جزیرہ نما ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی Carautoohil سطح سمندر سے 1050 میٹر اونچی ہے اور سب سے پست حصہ دس فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ آئرلینڈ کا سب سےبڑا دریا دریائے Shannon  ہے جس کی لمبائی 360 کلومیٹر ہے جو شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہوا بحر اوقیانوس میں جا گرتا یے۔ آئرلینڈ کی آب و ہوا سردیوں میں نہ بہت

آئرلینڈ یاترا۔۔۔2

آئرلینڈ یاترا۔۔۔2 امیگریشن ڈسک پر موجود عربی بھائی کو جب ہم نے اپنا مقصد بتا دیا تو اس نے پہلے پولیو ویکسین سرٹفیکیٹ کا پوچھا۔ ہم نے فوراً پیش کیا۔ پھر اس نے کسی yellow paper کے بارے دریافت کیا تو ہم حیران رہ گئے کہ یہ پیلا کاغذ کیا بلا ہے کیونکہ ان کے ویب سائیٹ پر ایسی کسی چیز کا ذکر نہیں تھا۔ ہم نے کہا کہ اس کا تو ہمیں کوئی علم نہیں تھا۔ پھر اس نے معذرت کرکے ہمارے پاسپورٹ واپس کردیے۔ ان سے مزید بحث فضول سمجھتے ہوئے ہم مایوس ہوکر ائیرپورٹ کی عمارت کے اندر 12 گھنٹے کا طویل دورانیہ گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ خیال تھا کہ قطر ائیرویز کے ایسے مسافروں کے لیے آرام اور خوردونوش کا کوئی مناسب انتظام ہوگا۔  ائیرپورٹ کے اہلکاروں سے پوچھنے پر انہوں نے ہمیں quite rooms میں آرام کا مشورہ دیا۔ ہم خوش ہوگئے کہ کم از کم پرسکون کمرہ تو مل جائیگا جہاں آرام دہ صوفے ہوں گے جن پر چند ساعت آرام کرسکتے ہیں اور تھوڑی سی نیند بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ جب اس جگہہ پہنچے جہاں کوائٹ روم لکھا ہوا تھا تو پتہ چلا کہ سینکڑوں مسافروں کے لیے بنایا گیا لاونج ہے جہاں لمبی لمبی نیلی پیلی سخت میٹریل کی بنی ہوئی فیکسڈ کرسیاں قطاروں می

آئرلینڈ یاترا

آئرلینڈ یاترا پچھلے سال جب آئرلینڈ کے لیے ہماری ویزہ درخواست مسترد ہوئی تھی تو اہل یورپ کو کوسنے دینے کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی برابھلا کہتا رہا کیونکہ ویزہ کے لیے درخواست جمع کرانا ہم دور دراز علاقوں کے باسیوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے۔ سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور وہ بھی کھنڈرات جیسی سڑکوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے جب اسلام آباد پہنچتے ہیں تو ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس والے ہماری چمڑی اتارتے ہیں۔ ہم نےپچھلے سال اس سلسلے میں دو دفعہ سفر کیا۔ پہلی دفعہ درخواست جمع کرانے اور دوسری دفعہ جب اعتراضات لگا کر درخوست واپس کردی گئی تو اپیل کے لیے ہمیں آنا پڑا تھا۔  چترال کا ہر کوئی جانتا ہے کہ جب وہ تورکھو، مولکھو، لاسپور اور یارخون سے دیر کی طرف آتا ہے تو اسے کس کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیر سے نیچے سڑکوں کی حالت بہتر ہے اس لیے سفربھی تھوڑا آرام دہ ہوتا ہے۔ نظر انداز وادی چترال کے اندر سڑک نما کھنڈرات کے اوپر کسی بھی قسم کی آرام دہ گاڑی میں سفر کے دوران انجر پنجر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر آدمی کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو تو ویسے بھی ہڈیوں کی کمزوری اور جوڑوں کا ڈھیلا پن عام ہوتا ہے اور معمولی جھٹکوں سے جسم می