Posts

Showing posts from January, 2021

آج سے کوئی چالیس سال پہلے میرا ایک عزیز سعودی عرب میں ملازمت کر رہا تھا۔ میں نے ایک خط ان سے پوچھا، " عرب میں شعائر اسلام پر عمل درآمد مثالی ہوگا؟" ہم سب کو یہ یقین رہا ہےکہ مکہ اور مدینہ اسلام کے پیدائشی شہر ہونے کے ناتے وہاں شعائر اسلام پر مسلمانوں کا عمل باقی اسلامی دنیا کے لیے مثالی ہی ہوگا۔ یہ عقیدہ تقریباً سارے مسلمان فرقوں کا مشترک ہے۔ جب میرے اس عزیز کا جواب آیا تو میں دنگ رہ گیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ " یہاں کے گلی کوچوں اوربازاروں میں اسلام نظر آتا ہے۔ شیخوں کے گھروں میں ناپید ہے۔ اسلام پر عمل پاکستان میں ہے" مجھے یقین نہیں آیا تھا اگرچہ وہ بندہ قوم سادات کے ایک راسخ العقیدہ سنی مذہبی گھرانے کا تھا اور سعودیہ میں اس کا قیام چھ سات سالوں سے تھا۔2016 میں اللہ نے مجھے خود موقع عنایت کیا کہ بندہ ناچیز اس کے گھر کا تواف کرسکے۔ عمرہ کے لیے گیا اور کوئی ایک ہفتہ گزار آیا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسجد میں آزان ہوتے ہی بازاروں میں شٹر ڈاؤن ہوتا ہے۔ بتایا گیا کہ نماز کے وقت اگر کوئی دکان کھلی رہی تو وہ بندہ کوڑے کھائے گا بلکہ جیل بھی ہوگی۔ یہ بھی دیکھا کہ شاہراہوں کے ساتھ واقع ہر پٹرول پمپ کے ساتھ ایک مسجد قائم ہے۔ یہ بھی دیکھا کہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے باپردہ جائے نماز موجود ہے۔ یہ بھی دیکھا کہ خواتین گھروں سے باہر بہت کم نظر آتی ہیں اور مکمل پردے میں ہوتی ہیں۔ یہ سارا کچھ باہر کی دنیا کا نقشہ تھا جو ہم دیکھ پائے لیکن شیوخ کے گھروں کے اندر جھانکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنے اس عزیز کی چالیس سال پرانی اطلاع کی تصدیق نہیں کر پایا۔غالباً 2017 میں ایک کتاب میرے ہاتھ لگی۔ کتاب کا نام "PRINCESS" اور لکھاری امریکن خاتون ، جین سیسوں تھی۔ یہ کتاب ایک سعودی شہزادی یعنی شاہ عبدالعزیز کی پوتی کی ایک طرح سے سوانح ہے جو اس کی زبانی اور اس کی دوست جین سیسون کے قلم سے لکھی گئی ہے البتہ کرداروں کی جانی اور سماجی حفاظت کے پیش نظر فرضی نام اپنائے گئے ہیں۔اس میں شہزادی جس نے پرنسس سلطانہ کے نام سے اپنی شناخت کرائی ہے شاہی خاندان کے محلوں کے اندر کی کہانیوں کی راوی ہے۔ بعد میں اسی مصنفہ کے قلم سے ‏Princess Sultana's daughters, ‏Desert Royal, ‏Princess Secrets to share, ‏Princess Sultana's Circles ‎جیسی کتابیں بھی پڑھنے کو ملیں البتہ شدید دکھ دیتی رہیں۔ کیونکہ کہانیاں بہت ہی دلخراش تھیں اور غیر انسانی کرداروں کےگرد گھومتی تھیں۔ ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد سعودی عرب کے شاہی خاندان اور بااثر دولت مند شیخوں کی زندگی کا اصل نقشہ سامنے آیا۔ مجھے اپنے اس عزیز کی چالیس سال پرانی خبر کے تصدیق ہوگئی کہ واقع اسلام عرب کے گلی کوچوں اور بازاروں میں ہے گھروں کے اندر ندارد۔حال ہی میں شہزادی سلطانہ کی کہانیوں پر مبنی جین سیسون کی پانچویں کتاب ‏PRINCESS stepping out of the Shadows ‎ہاتھ لگی جس میں ایک ایسی کہانی لکھی گئی ہےجو ناقابل بیان ہے۔ اگرچہ ان جیسی شرمناک اور ننگ انسانیت کہانیوں کی ہمارے ملک میں بھی کمی نہیں ہے لیکن اسلام کے گھر میں ان کا وجود باعث دکھ ہے۔ ان کو بیان کرنا ضروری بھی ہے تاکہ عام مسلمان دھوکے میں نہ رہے کہ اسلام کا سچا نقشہ سعودیہ میں ہے تاہم اس سے مدافعتی لشکر کا حملہ ناقابل برداشت ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے فی الحال اس کہانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے دوسری کہانی کا مختصر تذکرہ مناسب ہے جو ان میں کسی کتاب میں مرقوم ہےڈاکٹر مینا، شہزادی سلطانہ کی گہری سہیلی ہے اور عرب شہری ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کی چوتھی بیٹی کے طور پر دنیا میں آئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے باپ نے اسکی ماں کو شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ اس نے چوتھی دفعہ بھی بچی کو جنم دیا تھا۔ پھر اس شقی القلب آدمزاد نے اس نو مولد بچی کو اٹھائے ریگستان کی طرف چل پڑا تھا تاکہ اس معصوم کو زندہ زمین میں گھاڑ دے۔ اس نے بچی کو اٹھائے ہوئے اعلان کیا تھا کہ نو مولد بچی جو دفنانے کےبعدباویوں کو بھی ریگزار میں دفن کرےگا۔ جب وہ بچی کو لے کر گھرسےنکلا تو اس کے بڑے بھائی کو خبر ہوئی اور اس نے اس کا راستہ روک لیا اور بچی کو اس سے چھین کر اس کی ماں کے حوالے کیا۔ تائی نے معصوم بچیوں کی جانیں تو بچا لیں لیکن ظالم بھائی کو اپنی مظلوم بیوی کو طلاق دینے اور بچیوں کے ساتھ گھر سے نکالنے سے نہیں روک پایا۔ اس جابر انسان نے مطلقہ عورت کو بچیوں سمیت اس میکے پہنچا کر چھوڑ گیا اور پھر کبھی موڑ کرنہیں دیکھا۔ یہاں ماں باپ اس کو گھر میں داخل ہونے نہیں دیا اور دروازے پر کھڑی ماں اپنے ہی لخت جگر کو اس کے پیدائشی گھر میں پناہ لینے سے روک لیا۔ جائیں تو کہاں جائیں؟ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اس عورت کی سب سے بڑی بچی اپنی نانی کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ جاتی ہے اور کسی طرح نیچے سے گھر میں گھسنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ کہانی نویس کہتی ہے کہ شاید اس بچی کو قدیم عربی ضرب المثل یاد ہو، " اونٹ کی ناک خیمے میں داخل ہو جائے تو سمجھ لو کہ اونٹ بھی خیمے میں داخل ہوگیا"۔ بچی نے جب اپنی نانی کی توجہ ہٹا دی تو اس کی ماں بھی دوسری بچیوں کے ساتھ گھر میں گھسنے میں کامیاب ہوگئی۔ ماں باپ ان کو پھر باہر نہ نکال پائے۔ کچھ عرصہ فاقہ کرنےکےبعد والدین کے دلوں میں اللہ نے رحم ڈالدیا اور ان کو روٹی بھی ملنے لگی۔ بچیوں کی ماں نےکہیں ملازمت ڈھونڈ لی اور اپنے بچوں کو پالنے لگی۔ آگے جاکر بوڑھے ماں باپ کا بھی سہارا بن گئی۔اس کی سب سے چھوٹی بچی بڑی ذہین نکلی۔ سکول میں اچھی پوزیشن لیتی گئی یہاں تک کہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے وظیفہ حاصل کرلیا۔ جس بچی کو اس کا شقی القلب باپ جس ریگستان زندہ دفن کرنے والا تھا اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے اسی ریگستان کے باسیوں کی خدمت کرنے لگی۔ اپنی زندگی کے تلخ تجربات کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر مینا نے عرب کی مظلوم بچیوں کی تعلیم، صحت اور تحفظ کے لیے رضاکارانہ کام کرنا شروع کیا۔ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غربت زدہ اور مظلوم بچیوں کی تعلیم و تحفظ پر خرچ کرنے لگی۔ بچیوں کی تعلیم سے متعلق ایک کانفرنس کے دوران شہزادی سلطانہ کی اس سے ملاقات ہوگئی تاہم ڈاکٹر مینا شاہی خاندان والوں سے گریزاں رہی۔ لیکن شہزادی سلطانہ کو ان سے انس پیدا ہوگئی تھی۔ آہستہ آہستہ ان میں گہری دوستی ہوگئی کیونکہ دونوں کے خیالات اور ان کا میشن مشترک تھا۔ آج یہ دو عظیم خواتین سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے لیے مالی اور اخلاقی مدد دینے میں ہراول دستے کا کردار بڑی راز داری کیساتھ ادا رہی ہیں۔ انہوں نے ہم خیال خواتین کا بڑا حلقہ پیدا کیا ہے اور پر امید ہیں کہ وہ دن جلد آئے گا کہ سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں جہاں عورتیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، مرد کے ظالمانہ تسلط سے آزاد انسانی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گی۔