Posts

Showing posts from March, 2022

شاندار عزت افزائی

Image
چند دن پہلے ڈائریکٹر جنرل ادارہ تعلقات عامہ( ISPR) کے ہیڈ کوارٹر  سے خط موصول ہوا جس میں مجھ ناچیز کو 23 مارچ 2022 کی یوم پاکستان کی پریڈ کی تقریب میں "فخر پاکستان نشست گاہ" کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ صرف میرا ہی نہیں میری ہونہار بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کو بھی یہ اعزاز بخشا گیا تھا۔ پیارے وطن کے شمشال گلگت اور یارخون چترال سے لے کر گوادر بلوچستان اور کراچی کے ساحل تک کوئی 75  خواتین و حضرات ، بچے بچیوں کو اس اعزاز کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔ دعوت نامہ کے مطابق ہم 22 مارچ سے 24 مارچ 2022 تک پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے مہمان بننے والے تھے۔  پاکستان آرمی کی طرف سے ملنے والی یہ عزت افزائی ہم جیسے لوگوں لیے بہت ہی بڑی قدر افزائی تھی جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں۔ یہ ملک عزیز کی تاریخ میں دوسری قومی تقریب تھی کہ ملک کے باوقار ادارے نے بغیر کسی امتیاز دین و مذہب، رنگ و نسل اور دنیاوی مقام کے ملک کے ان افراد کو اس معزز نشستت گاہ ( انکلوژر) کے لیے چنا تھا جنہوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی ایسا کام سر انجام دیا تھا جو پاکستانی قوم و وطن کی تعمیرو ترقی ، توقیر و عزت اور  سال

پاکستان کا قابل اعتماد ادارہ

جس زمانے سے قومی اداروں کے اندر سیاست کا عمل دخل شروع  ہوا ہے  ہمارے قومی اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ نہ صرف کارکردگی زوال پذیر ہوگئی ہے بلکہ ان کر اوپر سے عوام کا اعتماد بھی اٹھ گیا ہے۔ ان اداروں کے اندر کام کرنے والے ملازمین ہر صاحب اقتدار پارٹی اور افراد کے زاتی نوکر بن کر رہ گئے ہیں۔ بڑے سے بڑا آفیسر بھی آئین اور ضوابط کے مطابق اپنا اختیار استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ ہر کام، ہر فیصلہ حکمران حضرات کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ملازمین کی تقرریاں، تبادلے، ایم پی اے، ایم این اے، وزیر و مشیر  یہاں تک کے ایک معمولی سیاسی کارکن کے ہاتھ ہیں۔ اسی وجہ سے اداروں کو چلانے والے چھوٹے بڑے ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دینے کی بجائے سیاسی نمائیندوں کو خوش رکھنے کی فکر میں وقت گزارتا ہے۔ بعض کو اپنی کرسی بچانے کی فکر رہتی ہے تو بعض غیر قانونی مہربانیاں وصولنے کے لیے اپنا ضمیر بیچتے ہیں۔ اس لیے سرکاری ملازمین ریاست سے زیادہ ریاست چلانے والوں کے وفادار بن گئے ہیں۔  ایک طرح سے یہ ان کی مجبوری ہے۔ بال بچوں کا پیٹ پالنے کی مجبوری یا حرص و لالچ کا پیٹ بھرنے کی مجبوری۔ یوں ہمارے ملک کی سیاست ادار

تحریک عدم اعتماد کی جدوجہد

کافی عرصے سے منتشر حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش میں سرگردان ہے۔ اپوزیشن کی آپس میں دشمن جماعتیں دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہیں۔ ان کی یہ منافقانہ دوستی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور اس سے کس کس کو کیا کیا فایدہ پہنچتا ہے یہ ہم جیسے غیر سیاسی، ڈکٹیٹرشپ پسند "جاہل" لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جو نہیں سمجھتے ہیں وہ ان پارٹیوں کے نا اہل سربراہ ہیں۔ عوام کو اس قسم کی غیر ضروری پارلیمانی مشق سے نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے۔ اگر اپوزیشن جوڑ توڑ کے ذریعے عمران خان صاحب کو ہٹانے میں کامیاب بھی ہوئی ( اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے) تو عوام کو ریلیف ملنے والی نہیں ہے بلکہ بہت بڑا نقصان ان کے نصیب میں ہوگا جب یہ ترقیاتی کام پھر ٹھپ ہو جائیں گے۔ ہر حکومت اپنی مدت حکومت کے آخری دنوں میں عوام کو ریلیف دیتی ہے تاکہ اگلے انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوسکے۔ اگر عمران خان صاحب کی حکومت چلی جاتی ہے تو عوام کو وہ ریلیف نہیں ملے گی جس کی توقع ہے اور یوں عوام سراسر نقصان میں رہیں گے۔ اور ہاں یہ درست ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کرپشن کے کیس چل رہے ہیں ان کو تھوڑی بہت ریلیف مل سکتی ہے۔ تحری