Posts

Showing posts from December, 2018

گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل

بعض دفعہ سچ بولنے والا بندہ بھی چشم پوشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مصلحتوں کا شکارہوجاتا ہے۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو وہ محسوس کرتے ہیں یا اپنی دو آنکھوں سے مشاہدہ کرتےہیں لیکن اظہار  سے گریزاں نظر  آتے ہیں۔  کیونکہ سچ بیانی تلخ ہوتی ہے۔ دوست رشتے دار وغیرہ اخفا ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کی روایت نہیں رکھتے اور اگر کوئی دوسرا آدمی نشاندہی کرے تو دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ عوام میں سمجھ بوجھ رکھنے والے شہریوں کا حق بنتا ہے کہ وہ آپنے منتخب نمائیندوں اور سرکاری خزانے سے تنخواہ پانے والے ملازمین کی کار کردگی پر نظر رکھیں اور کہیں کمی خامی نظر آجائے تو سوال اٹھائیں، تنقید کریں اور اصلاح کا مطالبہ کریں۔ ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اچھی خدمات انجام دینے والوں کے کام کو سراہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملکی کاروبار درست سمت نہیں چل سکتا۔  پچھلے سال نومبر کے مہینے جب مجھے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بونی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا تو ہسپتال کی چار دیواری اور رہائشی عمارتوں کی بدترین صورت حال دیکھ کر انتہاٴی افسوس ہوا تھا۔ 2015 کے زلزلے کے نتیجے میں ہسپتال کی چار دیواری کا زیادہ

اسیرو زندگی 14

  اسپہ ترویو جماعتو انتحانو گانکوتین کوراغو خلفو ژاو مستوچو مڈل اسکولوہیڈمیشٹیر حضرت اللہ جان   صاحب   ہائے ریتانی۔ اسپہ کارہ تورتئے کہ ہسے جوش جماعت پاس برائے۔ اسپہ سور بڑانز اریر۔ نست سال سید دینار علی شاہ استاد اوشٹ پاس کوری گیتی اسپہ استاد بتی استئے۔ ہتو اوشٹ جماعت پاس بک تن اسپتے اسمان سرے اوشوئے۔ انتحانو ھ غمو سو جوستہ انتحانو نست شامہ بونیو قلمدار اسپہ دورہ مینو ہاٴَئے۔ مہ تت بونیو ڈمبوز گانیرو قلمداروتے بو اخلص کوراوتئے۔ ہسے ہار سال یومُنین یارخونتو گیاور۔ ہار دیہہ ای کما خاص دورین بس باوتئے۔ قلمدار بسی دی   خلفہ بسیو سار کیہ کم نو باور۔ بوتو ݰاپک بو جم باور وا چھوئے بوتی لازمی اوشوئے۔ زاغہ ٹاربٹ قلمدارو خوش ژیبارمن موژار اوشوئے۔ قلمدار چھوچی راغیشٹی روپھی دوروتے گیاور وا ڈانگو گوݯو نشی غیچھن تپ نیشے کوکیاغ رے وظیفہ کوراور۔ ہوستہ تھُل تھُل پھولوکن سُم دزبے باور۔ کیاغ روار کیاغ نو اوا ہیش کھیو ہُݰ نوکوراوتم۔ اسپہ څیڅیق ہتو پوشی بُہرتواو تم۔   ہتے چھوچی دی قلمدار ژوت روپھی ہائے۔ مہ نن ݰاپک کوریکو بچے بتھولو یو گانی استئے۔ قمدار گیتی نشیکو مہ نن توتے ریکی، " اے تات ہنُن م

اوہرکن گولو اژدار

کافر پشاڑ سے تعلق رکھنے والی یہ تیسری کہانی میں سنانے جارہا ہوں۔ یہ بات میراگرام اور اوہرکن گاؤں کے بڑے بوڑھوں سے سنی ہے کہ کافر پشار کے زمانے ہی میں اوہرکن گھاٹی کے اندر ایک ایسا اژدہا پیدا ہوا جو ندی اوہرکن کے دہانے نظر آنے والےکسی بھی جانور کو اپنی سانس کے ذریعے کھنچ لیتا اور نگل لیتا تھا۔ اس لیے یہاں کا کوئی باشندہ اوہرکن کے دہانے کیطرف جانے کاسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ    اژدها اتنا بڑا تھا کہ وہ ایک دفعہ ہل جوتتےہوئے دو بیلوں کو ہل، جوا اور ہل چلانے والے آدمی سمیت ہڑپ کرلیا تھا۔ اس بلا سے چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد ایک دن کافر پشاڑ نے اپنے خویش و اقارب کو اپنے گھر واقع اوہرکن بلایا اور ان کو بتایا کہ اس نے اس اژدہے کو مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے اہل محفل کو بتایا،" میں اس درندے کو قتل کرونگا لیکن میرا اپنا بچ جانا بھی بہت مشکل ہے۔   تاہم دوسرے لوگ اس سے نجات پاسکیں گے" اس نے اپنی سٹریٹجی بتاتے ہوئے کہا، " میں کل اوہرکن گول کے دہانے ہل جوتنے جاوں گا۔ اژ دھا مجھے بیکونبکے ساتھ نگل لے گا۔ میں اس درندے کے پیٹ میں جاتے

کیا ہم غریب ہیں؟

  ہم غریب ہیں والا یہ جملہ ہم لوگوں کا تکیہ  کلام بن گیا ہے۔ غربت مکاؤ پروگرام سابقہ حکومتوں نے بھی چلائیں البتہ حکومت کے کسی اقدام سے پہلے ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان نے گلگت بلتستان اور چترال میں غربت کم کرنے کی طرف پہلا آہم قدم اٹھایا تھا۔ انہوں نے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام پاکستان کا آغاز 1982-83 میں کیا جو آج تک چل رہا ہے۔  دیہی ترقیات کے اس نمونے کو سرکارنے بھی اپنایا اور ہمارے سابق صوبہ سرحد ( پختونخوا) میں سرحد رورل سپورٹ پروگرام کا اجرا کیا۔ رفتہ رفتہ سارے ملک میں اسی ماڈل کے پروگرامز چل پڑے۔ برصغیر  پاک ہند کی  لجینڈری شخصیت شعیب سلطان صاحب نے اس کی آبیاری کی اور آج پاکستان میں رورل سپورٹ پروگرام نٹ ورک یعنی این آر ایس پی این کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اے کے آر ایس پی نے دیہی ترقی کا جو آئیڈیا دیا وہ مقامی وسائل، افرادی قوت اور بچت  کے تصور پر انحصار کرتے ہوئے اشتراک عمل کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاشنا اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا تھا۔   اس پروگرام سے اگر ہم لوگ پوری طرح مستفید ہوئے ہوتے تو آج شمالی علاقے اور چترال پورے پاکستان میں معاشی ترقی کے  لحاذ سے ٹاپ پر ہوتے۔ ہمار

گورو پنجی

کھوار زبان میں "گور" چڑیل کو اور " پنجی" برجی کو کہتے ہیں۔ آج کا موضوع "گورو پنجی" یعنی چڑیل کی برجی ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو اپنے گھر چارغیری (لغل اباد) سے پاور گاؤں جاتے ہوئے پترانگاز سے گزر کر جب اوڅھو ہون کی حد بندی میں داخل ہونے کےقریب ہوتا جاتا تو میری نظریں راہ عام کے کنارے میری بائیں طرف پتھروں کے ایک چھوٹےڈھیر کی طرف اٹھا کرتی تھیں اور اس کے اردگرد چڑیل کی موجودگی کا خوف مجھ پر طاری ہوا کرتا تھا کیونکہ اس کا نام "گورو پنجی" تھا۔ چونکہ چڑیل کی یہ "یادگار" ایک بیابان میں تھی۔ اردگرد آبادی نہیں تھی۔ اوڅھوہون گاوں آباد نہیں تھا۔ اس مقام سےکوئی سو گز آگے میری ماں کے رشتے کے ماموں گلاب مراد اور لنگر مراد کے مکانات تھے اور اس سے آگےآگاوں کے شمال میں دینار خان کا مکان تھا جس میں وہ مستقل رہائش پذیر تھا جب کہ میری ماں کے ماموں صاحباں کچھ عرصے کے لیے اپنے ان نوآباد مکانوں میں رہائش رکھتے تھے۔ ان کے مستقل گھر پاور میں تھے۔ یارخون کی عوامی گزرگاہ برلب دریا ئے یارخون تھی۔ اس لیے  پترانگاز سے آگے ڈیڑھ دو کلومٹر کا بیابان والا راستہ ویسے بھی ڈ

مرغی اور انڈے

ہمارے کئی ایک سیاسی اور ادبی افلاطون  ہمارے وزیراعظم عمران خان کو اڑے ہاتھوں  لے رہے کہ اس نے مرغی اور انڈوں کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دینے کی بات کی ہے۔ آج کل یہ سوشل میڈیا کا کھٹا میٹھا موضوع ہے۔ دوسری طرف خان صاحب اور ان کی ٹیم غیر ملکی بلینر کے حوالے سے اپنی تجویز کا دفاع شد و مد کے ساتھ کر رہے ہیں۔  کراچی، لاہور ، پنڈی اسلام اباد، کےباسی مرغی اور انڈے کی دیہاتی زندگی میں اہمیت کو کیا جانیں۔ انہوں تو زندگی کا آغاز بازاری خوردو نوش سے کیا ہے اور زندگی بھر بازاری اجناس کے محتاج رہیں گے۔ ہمیں افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے دیہاتی زرعی معاشرے میں آنکھیں کھولیں، پلے اور بڑے ہوئے۔ اس وقت وہ بھی بازار کی غیر صحت مند اور غیر معیاری خوراک پر گزارہ کر رہے ہیں اور خان صاحب پر طنز کے نشتر چلا رہے ہیں۔۔ ہم جیسے دور افتادہ  دیہی علاقوں کے باشندوں سے پوچھیں کہ تازہ دیہی خوراک کی کیا اہمیت یے؟ اس کی خوشبو کیسی ہوتی اور اسکا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟  ہم سے یہ بھی پوچھیں کہ مرغی جیسی حقیر پالتو پرندے کی ہماری قدیم دیہاتی  زندگی میں کیا اہمیت تھی؟ اس قسم کا سوال میری ہمعمر کسی ماں  سے پوچھیں تو وہ