Posts

Showing posts from June, 2019

دورہ ترکی سلسلہ 4

آرکیالوجیکل میوزیم استنبول جیسا کہ بتایا تھا کہ ٹوپقپی سرائے کے بیرونی صحن میں آثار قدیمہ کا عجائب گھر بھی قائم ہے۔ بائیں ہاتھ میں ایک گلی نیچے اترتی ہوئی موجود ہے جس کے دونوں اطراف میں رکھے پتھر کی دیو قامت تابوتوں کو دیکھ کر خوف سا ہونے لگتا ہے کہ کہیں ان کے قدیم مکین باہر نہ کود پڑیں اور سیاح کو ہراسان نہ کریں۔ ان پر جو لکھائی نظر آرہی تھی وہ ہماری سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ یہ قبل مسیح کے انسانوں کے مدفن ہیں ۔ اس گلی کے آخر میں دائیں طرف عجائب گھر کا دروازہ ہے جہاں ٹکٹ خریدنے کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اپنی بیمار کمر پہ ہاتھ رکھے توپقپی سرائے کے اندر دو گھنٹے گھومنے کے بعد حالت میری بہت پتلی تھی اور آثار قدیمہ کا عجائب گھر دیکھے بغیر آج یہاں سے اپنی رہائشگاہ واپس ہوتا تو اگلے دن پھر آنا پڑتا۔ یہاں سے اوچیلار  جہاں ہمارا عارضی ٹھکانہ تھا ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سفر نصف حصہ ٹرین پر اور نصف میٹرو بس پر کرنا ہوتا ہے کیونکہ ٹیکسی ہم جیسے سیاحوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہے اور دوسری بات اور خاص کرکے مشاہدہ کر نے والوں کے لیے ٹیکسی مناسب نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر نے ک

دورہ ترکی۔سلسلہ 3

توپقپی سرائے( Topkapi palace) استنبول کا مشہور ترین مقام سلطان احمد نیلی مسجد اور آیا صوفیا میوزیم کے علاوہ توپقپی سرائ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ توپقپی کا لغوی معنی توپ دروازہ کے ہے۔ ترکی میں قپی دروازے کو کہتے ہیں اور سرائے محل کو کہتے ہیں جو انتہائی مناسب نام لگا۔ یہ محل سلاطین عثمانیہ کی آہم ترین یادگار ہے جس کا ایک حصہ فتح استنبول کے چھہ سال بعد 1459 میں فاتح سلطان احمد ثانی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سلاطین دوسرے حصوں کو شامل کرتے رہے۔میمار سنان، سرکیس بالیان، عجم علی اور داؤد آغا مختلف ادوار میں اس محل کے آرکیٹیکٹ تھے۔ چار سو سال تک یہ سلاطین عثمانیہ کی رہائشگاہ اور انتظامی مرکز رہی۔ اس کا ابتدائی نام " سرائ جدید عامرہ" تھا۔ آٹھارویں صدی عیسوی تک یہی نام تھا۔ سلطان محمود اول کے دور میں اس کا نام توپقپی رکھا گیا۔ یہ محل 1478 سے 1853تک شاہی رہائشگاہ اور انتظای مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ جب سلطان عبدالمجید اول نے بوسفورس کے کنارے ایک نئ محل" دولما بہجا"(Dolmabahce Sarayh) تعمیر کرائی تو 1856   میں شاہی رہاشگاہ وہیں منتقل ہوئی۔ اس کے بعد  19

دورہ ترکی سلسلہ 2

 سفر ترکی کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ترکی کے مختصر جغرافیہ اور تاریخ کے بارے قارئین کے معلومات کو تازہ کرنا مناسب  ہوگا۔ جمہوریہ ترکی کے شمال مشرق، مشرق، جنوب مشرق اورجنوب میں بالترتیب جارجیہ، ازربائجان، آرمینیا،ایران، عراق اور شام کے ممالک اور میڈٹرینین سی ہے۔ اس کے شمال میں بلیک سی اور مغرب میں بلغاریہ اور یونان  کے ممالک ہیں۔ یہ دو براعظموں کے سنگھم میں ہے جسکا ایک حصہ ایشیا میں اور ایک حصہ یورپ میں واقع ہے۔ ترکی کا دارلحکومت انقرہ ہے۔ اسکی ابادی کم و بیش آٹھ کروڑ ہے۔ اس کی کرنسی لیرا ہے جو ہمارے روپیہ سے قیمت کے لحاظ سے چھبیس گنا  بڑا ہے۔ استنبول ترکی کے قدیم ترین تاریخی مقامات کا امین شہر ہے جہاں صدیوں پرانی انسانی تاریخ کی یاگاریں اس دور کےکاریگروں کے کمال فن  کی شاہد ہیں۔ اسی شہر میں بحر مارمارا اور بحر اسود آپس میں ملتے ہیں۔ شہر قونیہ حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شمس تبریزی رحمت اللہ علیہ اور دوسرے صوفیائے کرام کے قدموں کے طفیل قابل احترام یے۔ ان کے علاوہ یہ ترکی یہی ہے جہاں کے کوہ جودی کی چوٹی پر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز  ہوگئی تھی اور یہ بھ

دورہ ترکی

ہماری پیاری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ،  عزیز داماد صاحب کریم خان اور بہت ہی پیارا نواسہ  ہادی محمد غوث کو آئیرلینڈ گئے گیارہ مہینے گزرچکے تھے۔ ان کو ملنے کو جی بہت چاہ رہا تھا۔ اُدھر وہ بھی ہمیں بہت مس کر رہے تھے۔ خاص کرکے ہادی ہمیں اور ہم اسکو بہت یاد آ رہے تھے۔ سال کے شروع میں ہم ائیرلینڈ جانے کے لیے ویزے کی درخواست دی تھی۔ چند تکنیکی وجوہات کی بنا پر ویزا نہ مل سکا۔ پھر بچوں نے مشورہ دیا کہ ہم ترکی کا ویزا حاصل کریں اور وہ بھی ترکی آئیں گے تاکہ وہیں پر چند دن اکھٹے رہ سکیں اور ترکی کے تاریخی مقامات کی سیر بھی کرسکیں۔ مشورہ پسند آیا کیونکہ ترکی دیکھنے کی آرزو پہلے ہی سے دل میں موجزن تھی۔ خاص کرکے استنبول کے تاریخی مقامات اور قونیہ میں حضرات پیر شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات پر حاضری کی تمنا  تھی۔ اس لیے میں اور میری اہلیہ نے ترکی کے پندرہ روز کے ویزا کے لیے درخواست جمع کرائی تو ایک ہفتے کے اندر اندر ویزا مل گیا۔ میں نے کہا،" مرحبا اپنا تو اپنا ہوتا ہے" بغیر کسی جھنجھٹ کے ترکی جانے کی اجازت مل گئی۔ اسی طرح پیچھلے سال ہم نے دُبئی کی سیر کی تھی۔ اس