Posts

Showing posts from January, 2019

زندگیو سفار ......16

   گلاب تتے تک انزیمن ملکھون سلامی" گمبوری تک انزیک بو اچہ زمانا رواج ہوے مه خیالہ۔  ملکھون سلامی کیہ کوراونیا۔ قدیمو تک انزیک پھیسو پھسو برائے۔ عاشق معشوقوت پولیرو کاغزو نس، شُتور لینڈُک، شیشو نس پھور لین کوری وا خور ہاݰ اشارو اشناری مڑاغ کوری انزیاوا برانی۔ ہیت عاشقو خاص خاص حالاتن معشوقو تے بیان کوراک برانی۔ آوا ھ قسمو تک انزیکار ہتے وخت خبار ہوتم کہ ای انُس ہاݰ مڵاغوشی مہ سُم دی تورتئے۔ مه عمرہاݰ باریکی کورمن او چے خفیہ لوان ہوݰ کوریکا نو توری اوشوے۔ ای انُس غیژی اسکولوتے بوغاوا دیہو ای پژال مه روئیتو  دیتی ای پھُک مڵاغ متے تارے ریتئے" ہمو فلانکی کومورو تتے انزے اسور"۔ آوا حیرانومان بتی پژالو موختو لوڑیتم ۔ وا ہتے مڵاغو ہوستہ کوری لوڵی ٹُمٹاٹق بتی بہچیتم۔کیہ لو مه اپکی نو ہائے۔ اپکی ہیزو ݯھوݯھو ہوئ۔ چھؤچی جواب دیت رے پژال تان کیڵی پاین ڈیکے بغائے۔ مه ہردی برف دیکا پرائے کہ ہیہ کیہ نوغ کورُم پوشتم۔ خیالی نو شیرو۔ ژانی نو گیرو کورُم۔ مڵاغو بستو دیتی کھوشتے اسکولوت بغاتم۔  خیال ھ سوری بہچی ہیہ مہ ژنی ہائے کہ آوا البت جوان بیرو بریتم کہ کومورو متے تک انزیتئے۔ نو آوا

زندگیو سفار۔۔۔۔۔۔ 15

نوٹ: اسیرو زندگیو ژغا" زندگیو سفار" راور) بانگو پرائمری اسکولہ چھورو جماعتہ باتم۔ اردوو عبارتی غیچ ݯوکاو ہائے۔ ہیسُم جُستہ مہ ہردی دی سبقو چےاسکولو سُم ڈنگ باو ہائے۔ تت دی دورو پھتی کورمن متے ذمہ کوریکہ پرائے۔ بوسُنو وختہ اسپہ دورو پرشو ݯھوݯھو گول چوکیستار ہیم بُوری یو گیتی اسپہ زمینو  ژغہ ژغا اوڅ نیسینی۔ ہیتن تھروسکی ژوئے کوری ہون ہونی ݯاکے مه دادا موݰیچ ݯاکے استئے۔ ہار چھوچی اسکولوتے بوغاوا ہتے اوغن پھارو یی رو غوسپانہ دک وا اچی گیتی ڑایان لوڑک مه ذمہ واری اوشوئے۔ یاردویُپو مݰکک دی مه گردنی اوشوئے۔ہیسو جُستہ  ہمی کورمان آوا اسکولوتے بوغاوا وا اچی گیاوا کوراوتم۔ وم نیزیک مه دش کورُم دی متے حوالہ اوشوئے۔ ہمی تروئے کوروم کھل مه دش اوشونی مگم تتو حکمو نو مانیکو کیہ لو تن نو اوشوئے۔ ہیغین دیتی ہردیو ٹیکہ بوہرت لاکھی ھ ذمہ واریان پورا کوریکو کھوشش کوریکا پھریتم۔ مونوتے یاردویُو مشکی بیم، ہتے موش جام گوم کی ریتئے جم کہ نو ہوئے اݰقالی کوکو نو باوتم۔ وا ہاݰتان مون ادا کوکو بچے ومدارو دورا دی بیم۔ کیاغ کہ پرائے جم، نو ہرائےکیہ زور نو لکھوم۔ حمالی اوڅھو موݰیچن ہردیار اوغ ݯاکیم کوریک

Numa Gul's honesty

آج ایک دوست بن شریف نے اپنی فیس بک پوسٹ میں یہ سٹوری لگا دی ہے کہ وادی ہنزہ کے سلطان اباد کی 55 سالہ خاتون نُما گل کو سر راہ چالیس ہزار روپے ملے۔ اس نے یہ رقم مکمل تحقیق کے بعد اس سیاح طالب العلم کو لوٹا دی جس نے یہ رقم کھودی تھی۔ میں نماگل بہن کو سلام پیش کیا اور اپنی گھر والی کو بتائی۔ اس نے بھی اس بہن کے مثالی کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا وہ عورت صحیح معنوں میں مومنہ ہوگی۔ ویسے عورتیں دوسری عورتوں  کی تعریف میں اکثر بخیلی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور غیبت میں چٹخارے لے لے کر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے  کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں  فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پھر اس نے مجھے یاد دلاتے ہوا کہا، "پیچھلے ماہ ہماری بیٹی ڈاکٹر زہرہ  نے یہاں قائد اعظم کالج میں میڈیکل کیمپ جاتے ہوئے اپنا بٹوا کھو دیا۔ کسی نے واپس نہیں کیا" میں نے کہا، "کوئی زیادہ مجبوری میں ہوگا یا ہوگی جس نے بٹوے میں موجود رقم کو "خدایودک'' یعنی  خدا کی مہربانی کہتاہوا یا کہتی ہوئی جیب میں ڈالا ہوگا یا ڈالی ہوگی۔ کہنے لگی "ٹھیک ہے لیکن بٹوا میں موجود بچی کے ضروری کارڈز کسی طرح واپس کیا ہوتا"
 فیس بک کا استعمال  فیس بک کی دنیا پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ فیس بک دوستوں کی ایک بڑی سی دنیا بن گئی ہے جس کے باسیوں کی اچھی خاصی تعداد جسمانی طور پر ایک دوسرے سے ناوقف ہے۔ میں خود ان میں شامل ہوں۔ محض فیس بک میں درج معلومات اور تصویر کو دیکھ کرہم ایک دوسرے کے بارے سوچتے اور رائے قائم کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا کہ جس بندے کے ساتھ میں دوستی کرنے جا رہا ہوں اس نام اور صورت کا بندہ  زمین کے اوپر موجود بھی ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو اس کا مزاج کیسا ہے؟ اس کا اخلاق کیسا ہے؟ اس کی تعلیم اورسمجھ بوجھ کا معیار کیسا ہے؟اس کا خاندانی پس منظر کیسا ہے؟ اس کے عقائد کیا ہیں؟ ایسے درجنوں سوالات ہیں جن کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہوتے۔ یہ دوستی ایک بلف ہے۔ اگر خوش قسمتی سے اچھے لوگوں کے ساتھ دوستی ہوگئی تو دونوں جہانوں کے فائدے حاصل ہوں گے۔ ان سے آپ کو  مخلصانہ مشورے ملیں گے۔ اچھا علم ملے گا۔ اچھی رہنمائی ملے گی۔ مہذبانہ تفریح ملے گی۔ خدا ناخواستہ کسی "خنّاس" کے ساتھ دوستی ہو گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انسان بے قدر ہوسکتا ہے۔ رسوا ہوسکتا ہے۔ گمراہ ہوسکتا ہے۔ قیمت

Performance Evaluation Report

کسی بھی عہدے کے لیے اہلیت کا معیار مقرر ہوتاہے۔ یہ معیار تعلیمی اور پیشہ ورانہ اسناد اور متعلقہ امتحان/ ٹیسٹ پاس کرنے سے مشروط   ہوتاہے۔ پہلے زمانے میں  امتحان لینے والے اداروں کے جاری کردہ ڈگریوں  اور سرٹفیکیٹس پراعتماد تھا اس لیےگریڈ 17 اور اوپر کی سرکاری ملازمت کےلیے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے سامنے زبانی انٹرویو میں کامیاب ہونا لازمی تھا۔ بعد میں باقاعدہ تحریری امتحان پاس کرنے اور میرٹ پر آنے کی شرط رکھی گئی جو آج بھی قائم ہے۔  البتہ نچلے درجے کی ملازمتوں کے لیے بھی اہلیت جانچنے کا ادارہ قائم ہوا جو این ٹی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ لوگ اس کی شفافیت پر بھی انگلی اٹھا رہے ہیں تاہم اس سے ملازمین کےکانتخاب کے معاملے میں تھوڑی بہت بہتری آگئی ہے۔ ویسے ہمارے یہاں پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی شفافیت پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ پھر بھی کمیشن پاس کرنے والے کم از کم اسی نوے فیصد ملازمین اپنے اپنے  مفوضہ کام سر انجام دینے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ سرکاری ملازمت میں داخل ہونے کے بعد ملازم کی اپنے فرائض انجام دینے کی صلاحیت رکھنے اور آگے ترقی دینے کی اہلیت کا جائزہ ہر سال کیلنڈر س