Numa Gul's honesty

آج ایک دوست بن شریف نے اپنی فیس بک پوسٹ میں یہ سٹوری لگا دی ہے کہ وادی ہنزہ کے سلطان اباد کی 55 سالہ خاتون نُما گل کو سر راہ چالیس ہزار روپے ملے۔ اس نے یہ رقم مکمل تحقیق کے بعد اس سیاح طالب العلم کو لوٹا دی جس نے یہ رقم کھودی تھی۔ میں نماگل بہن کو سلام پیش کیا اور اپنی گھر والی کو بتائی۔ اس نے بھی اس بہن کے مثالی کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا وہ عورت صحیح معنوں میں مومنہ ہوگی۔ ویسے عورتیں دوسری عورتوں  کی تعریف میں اکثر بخیلی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور غیبت میں چٹخارے لے لے کر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے  کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں  فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پھر اس نے مجھے یاد دلاتے ہوا کہا، "پیچھلے ماہ ہماری بیٹی ڈاکٹر زہرہ  نے یہاں قائد اعظم کالج میں میڈیکل کیمپ جاتے ہوئے اپنا بٹوا کھو دیا۔ کسی نے واپس نہیں کیا" میں نے کہا، "کوئی زیادہ مجبوری میں ہوگا یا ہوگی جس نے بٹوے میں موجود رقم کو "خدایودک'' یعنی  خدا کی مہربانی کہتاہوا یا کہتی ہوئی جیب میں ڈالا ہوگا یا ڈالی ہوگی۔ کہنے لگی "ٹھیک ہے لیکن بٹوا میں موجود بچی کے ضروری کارڈز کسی طرح واپس کیا ہوتا" میں نے کہا، " ضروری نہیں سمجھا ہوگا یا سمجھی ہوگی"۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس بات پر بے حد دکھ ہوا کہ ہمارے علاقے میں بھی کمزور ایمان والے لوگ پیدا ہوگئے ہیں۔
 ہنزہ کی نمہ گل  کی مومنوں والا کردار کے متعلق پڑھ کر دل بہت خوش ہوا اور فخر بھی محسوس کیا کہ انسانوں میں اللہ کے سچے بندے موجود ہیں۔ ساتھ ہی اس جیسا ایک معزز کردار مجھے یاد آیا۔ یہ کہانی 1984 یا 1985 کی ہے۔ میں اور گل مراد خان حسرت صاحب اپنی بیگمات کے ساتھ پشاور اور سوات گھومنے گئے تھے۔ پشاور میں سیر اور شاپنگ کے بعد ہم سوات چلے آئے۔ مینگورہ سوات میں ہمارے بریپ گاؤں سے تعلق رکھنے والے غلام رسول مرحوم اباسین ہوٹل مینگورہ کے منیجر تھے جو ہمارے پیارے دوست بھی تھے۔ ہم جب بھی سوات جاتے تو ان کے ہوٹل میں قیام کیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ بھی ہم  اباسین ہوٹل ہی گئے۔ رکشہ والا ہمیں اتار کر واپس ہوا۔ ہم اپنےاپنے کمروں میں آرام کرنے گئے۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد مجھے پیسے نکالنے کی ضرورت ہوئی۔ بریفکیس کو تالاش کیا تو نہیں ملا۔ یاد آیا کہ ہم نے بریف کیس رکشے سے اتارا ہی نہیں تھا۔ ہماری کوئی تیس ہزار کی رقم اور کم و بیش پندرہ ہزار کی گھڑیاں جو تحفے کے لیے باڑہ بازار سے خریدی گئی تھیں اس بریف کیس میں پڑی تھیں۔ ہماری جیبوں میں چار پانج سو سے زیادہ پیسہ نہیں تھا۔
مشکل بات یہ تھی کہ ہم نے ٹیکسی کا نمبر تک نوٹ نہیں کیا تھا البتہ گاڑی اور ڈرائیور کے خدو خال مجھے  یاد تھے۔ مختصر یہ کہ مرحوم غلام رسول مجھے ساتھ لے کر اس رکشے کو ڈھونڈنے نکلا۔ ہم نے مینگورہ کے سارے رکشہ اڈے چھان مارا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ ہر اڈے کے منشی اور ہر ملنے والا رکشہ ڈرائیور کو اس ڈرائیور کا  خلیہ بتا دیا۔ آخری اڈے سے واپس ہوٹل مڑنے والے ہی تھے کہ مجھے  اسی رکشےاور ڈرائیور کی ایک جھلک سی دکھا دی جب وہ ہمارے پاس سے گزرا۔ ہم نے اس کا پیچھا کیا تو وہ سیدھا ہوٹل اباسین کے اندر گھس گیا۔ ہم بھی پہنچے تو پتہ چلا وہی ڈرائیور تھاجس نے بریف کیس واپس کرنے پہنچا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ چھٹی کرکے گھر کے قریب مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے رکا تو گاڑی کے سواری والے حصے میں اپنی چادر لینے جھانکا تو  بریف کیس پڑا ہوا ملا اور وہ نماز پڑھے بغیر واپس چلے آیا تاکہ ہم لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔مجھے اس بات کا افسوس ہےکہ اس بڑے آدمی کا نام بھول گیا البتہ اس کا چہرہ آج بھی مجھے یاد ہے اور میں نے سینکڑوں لوگوں کو یہ کہانی سنائی ہے اور آج سارےدوستوں کو سنانے کا موقع ملا۔ اللہ پاک ہماری دھرتی کو ا پنے ایماندار بندوں سے خالی نہ چھوڑے! امین

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی