دروغ گو را حافظہ نہ باشد

فارسی زبان کو اگر اردو کی زینت قرار دی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ فارسی بولنے والے ادباء، شعراء اور دانشوروں کی فہرست بھی کافی لمبی ہے۔ ان کے نگارشات اور فرمودات آج بھی ہماری تقریرو تحریر کو زینت بخشنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بہترین دینی اور دنیاوی رہنمائی کا خزانہ ہیں۔
آج جب ہم اپنے محترم سیاسی رہنماؤں کی باتیں سنتے ہیں تو فارسی کا یہ مقولہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ واقعی جھوٹ بولنے والے کے پاس قوت حافظہ نہیں ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ یا تو اپنے سامعین کو حافظے اور عقل سے کورے سمجھتے ہیں کہ ان کے دماغ میں کسی بات کو یاد رکھنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں ہے۔ کوئی بات چاہے جتنی اہمیت کی کیوں نہ ہو انہیں یاد نہیں رہتی یا یہ خود اس صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔
گویا ہم ایسے لوگوں کو اپنا حکمراں چنتے ہیں جو قوت حافظہ سے مکمل طور پر محروم ہیں یا وہ ہمیں جانوروں سے بھی کم عقل سمجھتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم عوام اور ہمارا ملک خسارے میں ہیں۔ یہ کوئی معمولی خسارہ نہیں بلکہ یہ پاکستان اور اس کے عوام کا مستقبل کا خسارہ ہے۔ ناقابل تلافی خسارہ ہے۔  
یہاں ایک اور آہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم عوام اور سیاسی رہنماؤں میں جھوٹے کون ہیں ؟ بقول فارسی مقولے کے فروغ گو را حافظہ نباشد یعنی جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ۔ کیا ہمارے رہنما جھوٹے ہیں یا ہم عوام؟ یا ہم دونوں؟
ہمارے مرکزی سطح کے سیاسی لیڈروں کی ماضی کی تقریریں اور عوام سے کیے گئے وعدے دوبارہ سن لیں، اخبار نکال کر پڑھ لیں اور پھر آج کے حالات حاضرہ کا جائزہ لیں اور ان کی آج کی باتیں سنیں۔ کل جو لوگ ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام لگا رہے تھے، ایک دوسرے کو گالی گلوچ سے نوازتے تھے آج وہ  دوست بن گئے ہیں۔ ساجے دار ہیں۔ متحد ہیں۔ یہ نام نہاد لیڈران بار بار ہمارے سامنے وعدے کرتے اور توڑتے رہے ہیں اور ہم نے ہر بار ان کو ہی حکمران چنا اور چن رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام اور سیاسی لیڈرز دونوں جھوٹے ہیں۔ دونوں قوت حافظہ سے عاری ہیں۔ ہم سب پر کلام اللہ کے مطابق خدا کی لعنت برس رہی ہے۔ گزشتہ 77 سالوں کے ملکی حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ جو قومیں ہم سے بہت بعد آزادی حاصل کر لی ہیں وہ خوشحال زندگی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کے یہاں سیاسی استحکام یے۔ عوام میں سیاسی شعور پیدا ہو چکا ہے اور رہنما مخلص ہیں۔ امن و امان ہے۔ ان کی سرحدیں محفوظ ہیں ۔ ہمارے یہاں ان میں سے کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ہے۔
 اگر عوام سچے ہیں تو ہمیں ان حالات سے نکلنے کے لیے جھوٹے لوگوں کو مکمل طور پر مسترد کرنا ہوگا۔  ہمیں آئیندہ انتخابات میں ووٹ ڈالتے وقت اپنے لیڈروں کے سابقہ وعدہ وعید کو یاد رکھنا ہوگا کہ وہ کس حد اپنا وعدہ نبھایا ۔

Comments

Popular posts from this blog

انتقال غم آگین

کنج عافیت