Posts

Showing posts from July, 2018

اندیشہ ہاٴے بسیار

 اندیشہ ہاٴے بسیار حالیہ انتخابات کے نتاٴج سامنے آتے ہی شکست خوردہ ووٹروں نے فیسبک پر چترالی قوم کے لیے نازیبا القابات کی بھر مار کردی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چترال والوں نے ایم ایم اے کو جتوا کر اپنے مفادات کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ آٴیندہ پانج   سال تک ضلع چترال اپنے حقووق سے محروم رہے گا کیونکہ پی کے اور مرکز میں پی ٹی آٴی کی حکومت ہوگی جو چترال والوں کو ان کے کیے کی سزا دے گی۔  ان کا خیال ہے کہ چترال والے اتنے احمق ہیں کہ ہر دفعہ حذب اختلاف کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ میرے ان محترم مبصرین  ایک طرف اپنے آپ کو علم غائب سے واقف  یا سیاسیات کے ماہربتانے کی  نا کام کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف  یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میں ان کی غائب شناسی یا سیاسی بلوغت سے اتفاق نہیں کرتا البتہ ماضی کے تجربات سے متفق ہوں۔ زمانہ ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم نے سن نوے  کی دھائی اور 2008 سے 2018 کے دس کےدوران صرف دو پارٹیوں  یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ  نون کو اقتتدار  اور حذب اختلاف میں دیکھا ہے۔ ان پارٹیوں نے نوے کی دھائی میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا
نواز اینڈ فیملی کی سزا   اس تاریخی فیصلے کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ بچہ بچہ پڑھ اور سن چکا ہے۔ ایک طرف عوام اور تجزیہ نگار احتساب عدالت کے اس فیصلے کی تعریف کر رہے ہیں اور اسے انصاف کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ اور نواز کے ہمدرد اسے جانبدارانہ فیصلہ کہہ کر اس میں قانونی نکتے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جن کی نواز کے ساتھ نہ دوستی ہے اور نہ دشمنی اور نہ قانون کے باریک نکتوں سے واقف ہیں، حیران و پریشاں ہیں کہ عدل آخر کس چڑیا کا نام ہے؟ اور عدالت کو کس طرح کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ دونوں گروہ خوش ہوجاتے؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر کوئی قانون دان اور منصف ہے اس لیے ان کو پاکستان کی عدالت کے اندر کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ہر بڑے فیصلے کے پیچھے ان کو فوج کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔  اس فیصلے کے بعد ایسا تاثر دینے کی  کوشش کی جارہی ہے کہ ملک  کے سیاسی لوگ ہی سچے اور محب وطن پاکستانی ہیں اور یہی لوگ ہی دانائی اور بصیرت رکھتے ہیں باقی عوام للو پنجو ہیں ۔ایک طرح سے ان کی بات درست ہے کہ عوام عقل و شعور نہیں رکھتے ۔  سن نوے کی دھائی اس بات کی گوا
الیکشن بائیکاٹ تحریک                 شیرولی خان اسیر   ممکن ہے ہمارے علاقائی اورملکی   سیاستکار اس تحریک کو در خور اعتنا نہ سمجھیں کیونکہ الیکشن بائیکاٹ تحریک ایک پسماندہ علاقے کے نو جوانوں نے چلائی ہے لیکن دنیا کا باشعور طبقہ اس کو سنجیدگی سے لے گا اور اسے شعور کے سفر کی ایک آہم پیشرفت قرار دے گا۔ پاکستان کے پسماندہ صوبہ   خیبر پختونخوا   کے پسماندہ اور سب سے دور افتادہ ضلع چترال کی انتہائی نظرانداز رہنے والی یونین کونسلز یارخون، مستوج اور لاسپور کے نوجوانوں نے اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل نا اصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ کو ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کی تحریک شروع کردی ہے۔ یہ تحریک کے پی یوتھ اسمبلی کے مبمر رحمت وزیر آکاش کی قیادت میں چل پڑی ہے۔ اس بات سے صرف نظر کہ یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ باشعور ہوگَئے ہیں اور ہمیں بتا رہے ہیں کہ " ہما رے بزرگو کب                  تک ان   بے حس اور کرپٹ حکومتوں کے لیے چیخ چیخ کر اپنا گلہ خراب کروگے؟ کب تک ان کو ووٹ دینے کی خاطر اپنا قیمتی وقت برباد کرو
گل مراد حسرت کے افسانوں کا مجموعہ "چیلیکیو چھاغ "              شیرولی خان اسیر گل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ " چیلیکیو چھاغ" کھوار افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو چھپ کر مارکیٹ میں آچکا ہے۔ اگرچہ یہ گیارہ افسانوں کی ایک چھوٹی سی کتابی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ہے تاہم اس کی اہمیت بڑی قدوقامت رکھتی ہے کیونکہ نثری کھوار کی اس صنف میں یہ   پہلی کتاب ہے جو کھوار لائیبری کی زینت بنی۔ اگرچہ کھوار افسانے دوسرے لکھاریوں نے بھی لکھے ہیں لیکن ان کی کتابی صورت ہمارے سامنے نہیں آئی ہے۔ حسرت صاحب کھوار افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ افسانے تخلیق کئے ہیں جو جمہوراسلام کھوار اور دوسرے رسائل میں چھپتے رہے تھے۔ یہ مجموعہ ان کے نصف کا بھی احاطہ نہیں کرتا۔ ممکن ہے ان کی تالاش میں مصنف کو مشکل پیش آئی ہو کیونکہ صاحب کتاب فطری طور پر کاہل مزاج واقع ہوئےہیں جس کا انہیں خود بھی اعتراف ہے۔۔ جس زمانے میں انجمن ترقی کھوار اپنے شباب کے دور سے   گزر رہی تھی اور جسے ڈاکٹر فیضی جیسے توانا جسم و دماغ کے حامل صدر کی قیادت حاصل تھی تو انجمن کانفرنسیں منعقد کیا کرتی تھی اور ان کی روداد