الیکشن بائیکاٹ تحریک                شیرولی خان اسیر

 ممکن ہے ہمارے علاقائی اورملکی  سیاستکار اس تحریک کو در خور اعتنا نہ سمجھیں کیونکہ الیکشن بائیکاٹ تحریک ایک پسماندہ علاقے کے نو جوانوں نے چلائی ہے لیکن دنیا کا باشعور طبقہ اس کو سنجیدگی سے لے گا اور اسے شعور کے سفر کی ایک آہم پیشرفت قرار دے گا۔ پاکستان کے پسماندہ صوبہ  خیبر پختونخوا  کے پسماندہ اور سب سے دور افتادہ ضلع چترال کی انتہائی نظرانداز رہنے والی یونین کونسلز یارخون، مستوج اور لاسپور کے نوجوانوں نے اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل نا اصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ کو ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کی تحریک شروع کردی ہے۔ یہ تحریک کے پی یوتھ اسمبلی کے مبمر رحمت وزیر آکاش کی قیادت میں چل پڑی ہے۔ اس بات سے صرف نظر کہ یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ باشعور ہوگَئے ہیں اور ہمیں بتا رہے ہیں کہ " ہما رے بزرگو کب                تک ان  بے حس اور کرپٹ حکومتوں کے لیے چیخ چیخ کر اپنا گلہ خراب کروگے؟ کب تک ان کو ووٹ دینے کی خاطر اپنا قیمتی وقت برباد کروگے ؟ کب تک ان کے لیے آپس میں لڑوگے اور اپنا خوشگوار پیار بھرا ماحول مکدر کروگے؟ اب بس بھی کرو، بہت ہو گیا۔ ہم نے پاکستان کی آزادی میں اپنے جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ سکردو میں ہمارے شہیدوں کی قفریں اس بات کی زندہ گواہ ہیں۔ ہم پاکستان کے محب وطن اور پرامن  شہری ہونے کا ثبوت گزشتہ اکہتر سالوں سے دیتے آئے ہے لیکن شہریت کے حقوق سے محروم ہی رہے۔ ہم پاکستان کے شمالی سرحدوں کے محافظ ہیں اور بغیر کسی معاوضہ کے ان کی حفاظت کی ہے۔  ہمیں نہ جمہوری حکومتوں نے پاکستان کے شہری جانا اور نہ منتخب نمائیندوں نے ہمیں کسی قطار شمار میں شامل سمجھا۔ لے دے کےایک فوجی حکومت نے ہمیں پاکستانی تسلیم کرتے ہوئے ہمارے لیے سڑکوں اور پلوں کا انتظام کرنا چاہا تھا لیکن ہماری منتخب حکومتوں نے وہ بھی ہم سے چھین لیا اور کرپشن کرکے مختص رقم ہڑپ کرلی۔ ہم جب یارخون، مستوج یا لاسپور سے نیچے سفر کرتے ہیں یا بونی سے اپنی وادیوں کی طرف سفر کرتے ہیں تو اختتام سفر پر اپنی شکل خود بھی نہیں پہچان پاتے کیونکہ ہم گرد و غبار کی بھوری چادر میں لپٹ چکے ہوتے ہیں۔ اور سیروں مٹی ہمارے پھیپھڑوں میں جاچکی ہوتی ہے۔ ہمارے مریض ہسپتال پہنچتے پہنچتے دم توڑ چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے بچیاں اعلی تعلیم کی سہولیات سے محروم رہے ہیں۔  ان حالات کے تناظر میں ہمیں اپنے پاکستانی شہری ہونے پر شک ہو رہا ہے۔ ہمیں صرف الیکشن کے دنوں پاکستان کے شہری ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔ پھر اگلے الیکشن تک ہم بے حیثیت مخلوق بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ سڑکیں ہیں، نہ پل ہیں، نہ کالج اور نہ ہسپتال۔ ہمارا کوئی ایک بنیادی شہری حق بھی ہمیں حاصل نہیں ہے۔ سرکار کی بنائی ہوئی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر ہمیں ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
 بہتر ہوگا کی یو سی چرون والے بھی الیکشن بائیکاٹ تحریک میں شامل ہوں۔ بونی ہمارے سب ڈویژن کا ہیڈکوار ہے۔ اس کے اندر کی سڑک  اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال پرانے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں حالانکہ گزشتہ دس سالوں کے دو انتخابات میں ہم نے بونی سے ہی اپنا صوبائی اسمبلی کے ممبزر چنے تھے۔ انہوں نے نیچے اپنی سڑک کو دیکھ کر شرم محسوس کی اور نہ ان کو واحد سرکاری ہسپتال کی حالتزار کا ایک دفعہ بھی مشاہدہ کرنے کی توفیق ہوئی۔ اپنی چند کلومیٹر سڑک اوع ہسپتال کی مرمت و بحالی کے لیے چند روپوں کا بندوبست کر سکے۔ آئیندہ آپ کس امید پر ووٹ ڈالیں گے اور کس کو؟۔
مجھے اپنے نو جوان بچوں کی یہ تحریک سو فیصد جائز اور معقول لگتی ہے اور مجھے شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ ہم بڑوں نے کبھی اپنا احتجاج ریکارڈ کیوں نہیں کرایا؟۔ میں ذاتی طور پر بھی سوچ رہا تھا کہ آیا میں اس مرتبہ بھی اپنا ووٹ کا حق استعمال کرکے ضائع کروں یا نہ کروں؟ میں نے 1970 سے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ بدقسمتی سے وہ بیکار کی مشق ثابت ہوئے۔ کوئی بھی امیدوار میرے ووٹ کا حق ادا نہیں کیا۔ میری دی ہوئی امانت خیانت کا شکار ہوگئی۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ قوم کی یہ امانت اپنے پاس ہی رکھ لوں اور اللہ سے دعا کروں کہ مرنے سے پہلے مجھے اپنا ووٹ کسی امانتدار کے سپرد کرنے کا موقع دے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی