باران رحمت کی زحمت

ان دنوں مستوج، لاسپور، یارخون اور موڑکھو اور تورکھو کے بالائی علاقوں میں خوبانیوں کی بہار ہوتی ہے جب خوبانی کے پھول کھلتے ہیں جسے ہم کھوار میں ژوڑسپرو کہتے ہیں۔ خوبانی کے پھولوں کے گرنے تک بارش خوبانی کے پھلوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے۔ پھل بہت کم لگتے ہیں اور زمیندار کو بڑا خسارہ ہوتا ہے۔
وادئ یارخون میں گزشتہ 72 گھنٹوں سے مسلسل بارش برس رہی ہے اور موسم بھی کافی سے زیادہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ آج رات تھوڑی برف بھی پڑی۔ خطرہ ہے کہ خوبانیوں کے پھل لگنے کا عمل بری طرح متاثرہوا ہے۔ امسال خوبانی کے پھلوں سے محروم رہ جانے کا حدشہ ہے ۔  گزشتہ تین چار سالوں سے ہم خوبانیوں سے کوئی فایدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ کبھی بے وقت کی بارشوں کی وجہ سے پھول اور ننھے پھل گر جاتے ہیں اور کبھی غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خوبانی کے پھل پکنے کے عمل کے دوران سڑنے لگتے ہیں۔ محکمہء زراعت بھی اس سلسلے کوئی تحقیق نہیں کی کہ خوبانی اور سیب کے پھلوں کے سڑنے کی وجہ کیا ہے؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جو کچھ نقصان ہم اٹھا رہے ہیں یہ ہماری ناشکریوں کے سبب سے ہے۔ ہم اپنے پھلوں کی قدر نہیں کرتے اور اللہ کی ان بہترین نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے۔ جب پھل خوب لگتے ہیں تو ان کو بروقت محفوظ نہیں کرتے۔ وہ گرتے رہتے ہیں اور ہم اور ہمارے پالتو جانور ان کو پاؤں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔
آج سے چار دھائی پہلے تک جب ان دور دراز دیہاتوں میں گدام نہیں تھے توخوراک کی کمی پورا کرنے میں ہمارے پھلوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ توت کے پکنے کے بعد اکثر لوگ ایک وقت ک کھانا چھوڑا  کرتے اور توت کھاتے۔ اسی طرح خوبانی اور سیب وغیرہ پھلوں کے پکنے کے دوران لوگ پھلوں پر کافی انحصار کرتے تھے۔ پھر انہیں خشک کرکے ذخیرہ کرتے اور سردیوں میں استعمال میں لاتے ۔ موسم بہار میں خشک خوبانی سے مشروب تیار کرتے اور روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ سیب کے خشک قاشوں کو بنی ہوئی گندم کے ساتھ پیس کر سفوف تیار کرتے اور موسم بہار میں اس کا شربت بناکر پیا کرتے تھے۔ یہ بہت طاقتور فوڈ سپلیمنٹس تھے۔
جب سے دیہاتی عوام کو اپنے اپنے قریبی گوداموں سے گندم معقول قیمت پر بغیر کسی تکلیف کے ملنے لگی تو زمینداروں کی اکثریت نے اپنی ان پھلوں کو محفوظ کرنا چھوڑ دیا ۔ جو چند لوگ ان کو محفوظ کرتے تھے وہ انہیں بیچ ڈالتے۔ اس دور میں ہم خوبانی کے جوس ،(چمبوروغ) اور خشک سیب کے پاوڈر (بیڑِنگ) کے شربت کو بھول گئے ہیں۔ خشک توت بہت کم لوگ ذخیرہ کرتے ہیں۔ یوں ہم ایک طرف قدرتی خوراک سے اپنے آپ کو محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی ناشکری کا مرتکب ہو رہے ہیں۔  ہمارے زمینداروں کو چاہیے کہ اللہ کی دی ہوئی ان نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں ضائع ہونے سے بچائیں اور اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں۔
ہم محکمہ زراعت کے اہلکاروں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مقامی پھلوں کی حفاظت اور فروع میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

Comments

  1. اللہ کرے۔خدشات کے برعکس ہو۔ اور غریبوں کا اہم ذریعہ معاش خوبانی سیب اݱو اور ناشپاتیوں میں پھل لگیں۔ اور ہاں گندم کا فصل بھی بے وقت کی برفباری سے محفوظ رہے۔ اور محکمہ زراعت بھی اپکے بہترین مشوروں پر عمل کرنے کے قابل ہوجائے https://english.chitraltimes.com/climate-change-its-impact-on-chitral-and-some-local-ways-to-go-about-it-by-shah-karez/

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ