Posts

Showing posts from December, 2021

بھنگ کی کاشت کی قانونی حیثیت

بھنگی کی کاشت کی قانونی حیثیت موقر قومی اخبار دی نیشن کی 23 دسمبر کی خبر کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز صاحب نے بھنگ کی سرکاری کاشت کی تیار فصل کی کٹائی کا افتتاح کیا۔  انہوں نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری سطح پر کاشت کی ہوئی بھنگ کی کامیاب فصل ساڑھے تین مہینے میں تیار ہوئی۔ انہوں نے اس پودے کے فوائد اور ادوایات کی صنعت میں اس کی اہمیت بھی کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ بھنگ کی فصل دوسری نشہ آور چیزوں سے دس گنا زیادہ فائدہ مند ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کا بیج مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اس نے بھنگ کو کپاس کا متبادل بھی قرار دیا۔ یہ بھی خبر ہے کہ ایوان بالا میں بھنگ کے بارے قانون سازی کی کاروائی جاری ہے۔ اس کی حیثیت کا تعین کرکے اس کے کاروبار، نقل و حمل اور استعمال سے متعلق قانون سازی کی جائے گی۔ دسمبر 2021 کی 16 تاریخ کو معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کے خصوصی بینچ کی  بھنگ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے معزز جج صاحباں نے بھنگ کو ہیروئین کے مقابلے میں کم نقصان دہ نشہ قرار دیا ہے نیز اسے کئی بیماریوں کے لیے علاج بھی قرار دیا ۔ معز

خاندان سرنگ کی بزرگ ترین شخصیت

قرآن پاک کی روشنی میں ہم نسب افراد کا ایک دوسرے کو جاننا پہچاننا معروف عمل ہے البتہ تفخر حرام ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک وہ شخص وقعت رکھتا ہے جو اس سے ڈرتا ہے۔ جب رشتوں اور فاصلوں میں قربت ہو تو ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنا فرض بنتا ہے۔ میں ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا ہوں کہ اپنے خاندان کے بڑوں کے بارے میں باخبر رہوں۔ بعض اوقات بحالت مجبوری ہم سے کوتاہی ہوتی رہتی ہے۔ اپنے سے عمر میں بڑے ہر فرد کا احترام انسانیت کا طرہ امتیاز ہے۔ ایک شخص کی سیرت اس کے احترام انسانیت کے پیمانے کے ذریعے ناپی جاسکتی ہے۔ معاشرے کے بزرگ افراد کے ساتھ نشست میری پسندیدہ اعمال میں شامل ہے البتہ حالات و واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو اس شوق کی تکمیل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آج میں اپنے خاندان کی بزرگ ترین شخصیت کا تعارف کرانا چاہتا ہوں۔ میرے علم کے مطابق زوندران چترال کی سرنگ شاخ میں قاسمے خاندان کے میکی نور نواز خان موضع میراگرام نمبر 1 واحد بزرگ شخصیت اس وقت حیات ہیں جو ہمارا چچا لگتے ہیں۔ سرنگ شاخ کے قاسمے بریپ یارخون کے قاسمان دور، چونج اور دودوشئے مستوج ،میراگرام نمبر 1، قاسمان دور آوی اور کروئ گولوغ آوی میں رہتے ہیں۔ ا

یک شب یادگار

  20 نومبر 2021 کو انجمن ترقی کھوار نے گل مراد خان حسرت مرحوم  کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ انجمن کے صدر شہزادہ تنویر الملک صاحب نے اس ناچیز کو بحیثیت خاص مہمان تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی مجھے ان کی دعوت بہر قیمت  بصد شکریہ قبول کرنا تھی۔ مختلف سماجی، علمی، ادبی اور ثقافتی تقریبات میں کسی کو صدارت اور مہمان خصوصی کی کرسی پیش کرنا بہت بڑی عزت افزائی ہے البتہ میں اس معاملے میں ذرا ناشکرا واقع ہوا ہوں۔ میری اس ناشکری کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ کام کافی مشکل لگتا ہے۔ دو تین گھنٹے درجنوں مقررین کو توجہ سے سننا اور پھر جب محفل بوریت کا شکار ہوتی ہے تو مہمان خصوصی اور صدر محفل کو اظہار خیال کے لیے بلایا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف شرکاء کی بوریت دور کرکے ان کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے بلکہ ان فاضل مقررین کی آراء پر بھی رائےدینی ہوتی ہے۔ ایک طرح سے اسکول کے ایک طالب علم کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ چپ چاپ استاد کا لکچر سنو، آخر میں ہم جماعت ساتھیوں کے مجمع کے سامنے استاد کے سوالات کے جوابات پیش کرو۔ طالب العلم کی غلطی در گزر کے قابل ہوتی ہے لیکن کسی تقریب کے صدر مجلس اور مہمان کی معمولی ل

ہمارے استادجی

کسی عام آدمی کی سوانح لکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ جب آدمی کی شخصیت اپنے اندر قوس قزح کے رنگ،عطر فروش کی دکان، دلبرانہ اداؤں کا پریستان، ملائمت ، حلاوت اور ملاحت کا ایک جہاں اور صلاحیتوں کا گنجہائے گرانمایہ رکھتا ہو تو ان پر قلم اٹھانا کسی بہت ہی منجھے ہوئے باہمت لکھاری کا کام ہی ہو سکتا تھا۔  ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ہشت پہلو نہیں بلکہ ہشتاد پہلو رکھنے والی شخصیت کا نام ہے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو درجنوں گوشے رکھتا ہے۔ ان سب تک رسائی ممکن نہیں اگر ہو بھی بیان کرنا آسان نہیں۔ مجھے یہ اقرار کرتے ہوئے کسی قسم کی کم مائیگی کا احساس نہیں ہو رہا کہ میں نے کئی دفعہ فیضی پر قلم اٹھانے کا ارادہ کیا لیکن ہمت نے ہر دفعہ جواب دیدیا۔ پھر ایک دن جب یہ دل خوشکن خبر ملی کہ محمد جاوید حیات نام کے مرد میدان نے یہ مشکل ترین کام سرانجام دیدیا ہے تو میری خوشی دیدنی تھی اور کتاب کو پڑھنے کا اشتیاق متلاطم ہوا۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر فیضی صاحب کو فون لگایا اور ان پر گلے شکووں  کی بوچھاڑ کردی "دیکھو بھائی! یہ کیا بے مروتی ہے۔ کیا ہم اتنے قابل فراموش قرار  پا گئے ہیں کہ اتنی اہم تصنیف کا ایک جلد بھی تحفے میں ن

ضلع ‏غیرز۔۔۔۔4

Image
ضلع غیرز ۔۔۔4 غیرز کی بڑی وادی کو بہت سے لوگ جانتے ہوں گے جن کو اس وادی کے اندر سے گلگت سے چترال یا چترال سے گلگت سفر کر نے کا موقع ملا ہو البتہ بطور سیاح بہت کم لوگوں نے اس حسین وادی کو دیکھا ہوگا۔ جس طرح اس سلسلے کی پہلی قسط میں ذکر کیا تھا کہ غیرز کا ضلع گلگت کی طرف سے گاؤں گلاپور سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور گنجان آباد گاؤں شیر قلعہ ہی ہے جو دریا پار واقع ہے۔نام سے ظاہر ہے کہ یہاں کوئی اہم قدیم قلعہ ہوگا۔ میں نے صرف دور دور سے اس کا نظارہ کیا ہے جو جاذب نظر ہے۔ اگلی دفعہ اگر گلگت جانا ہوا تو انشاللہ شیر قلعہ ضرور دیکھوں گا اور اس کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال اپنے قارئین کو سناؤں گا۔ گلگت چترال روڈ پر گلاپور سے آگے دلناٹی کا چھوٹا سا خوبصورت گاوں ہے۔ اس سے آگے گوہر آباد آتا ہے۔ یہ بھی دلکش ہے۔ پھر گچ کی چھوٹی بستی ہے۔ دریا پار ریٹائرڈ کمشنر قمرشہزاد کا پیارا سا گاؤں جپوکئے واقع ہے۔ سڑک کے ساتھ اگلا گاؤں گلمتی ہے۔ سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر بوبر آباد ہے۔ ہر گاؤں درختوں میں چھپا ہوا حسن فطرت سے مالامال ہے۔ اس کے بعد سیاح  سنگل میں داخل ہوتا ہے۔  جس کے ساتھ ملحق گاؤں تھی

زندگیو سفار 24

سٹیٹ ہائی اسکول ݯھترارو ہالہ اسپہ انتحان شروغ ہوئے۔ سائڈ رومی اسپہ نشیتانی۔ سورو موڵو دیتی پرچہ نیویشک شروغیتم۔ پھری یری غیری لوڵیکو غوش تن نو بوئے۔ امتحانو نگران کا اوشونی مه ہردیی نو گونین۔نقل رے لہازی ہمونیہ پت ݯھترارہ نو گیتی اوشوئے۔ ہار ایوالی تان قابلیتو مطابقہ پرچہ کوراور۔    انت،قحان نیوف جوش بسہ نسی نسیئلک اوشوئے۔ مه ݯھترارہ پیڅھی دوروتے اچی گیکو مه دادو ژن نو لاکیتئے۔ مہ ژاؤ ہردی پھت بوئے رے اچی حال ہوئے۔نذور مکوچے پھولکانزار شاجیو تین پھُک کیہ سودہ گانی بوخچہ کوری اچی ویݰیتئے۔ تان استورو گانی اویونو بغئے۔ ایونو میتار ژاو مقتدا خانو چوتن ننو نن، مه بابا شوکھور خانو موژغیشٹی تت غزن خانو ژور  برائے ( آمان ملک میتارو اݱغال سونغریچی خونزا) وا مه تتو بو خوش داراوا برائے۔ ھ رشتا ہتے واویو ژور گینی دی مہ دادو نسہ روپوش نو باوا برانی۔ ہیغین دیتی مه دادا ݯھترارو گیتی مقتدا خانو نانیو یعنی تان بیچیو ژورو پوشیکو بوغاک برائے۔ ہیہ مکالا نیوف جوش بسوتین بغئے۔ استورو زیختی، تان اسپڅارو چے تو ژیژاوان سو ہردی پھتی کوری مه انتحان نسی نسیکو انُس بسمتی گرینج استورو چھیاقی دیتی اچی ݯھترارہ تورتئے

گلگت ‏ضیافتیں

Image
گلگت ضیافتیں ہمارے ایک برخوردار ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے پروفیسر اور لکھاری بھی ہے۔ جب بھی مجھے کسی پر تکلف ضیافت کھانے کا موقع ملتا ہے تو وہ مجھے یاد آتا ہے۔ خواہش ہوتی ہے کہ اگر ساتھ ہوتا تو کتنا مزہ لے لے کر کھاتا اور اس کے بعد نوک قلم سے وہ تعریف و توصیف کا نثری سماں باندھ لیتا کہ کھلانے والے کو مزید کھلانے کی آرزو ہوتی۔ کاش جوانی دیوانی کے دنوں اگر ہم ضیافت نامہ لکھنے کی طرح ڈالتے تو آج تک کئی ضخیم کتابیں جنم لیتیں۔ اب کی حالت یہ ہے کہ کسی دعوت میں کھانے کی نوع بہ نوع خوراک دیکھ کر اشتہا تو بڑھ جاتی ہے لیکن پھر ضعیف العمر ہاضمے کی فکر دامن گیر ہو کر اشتہا کو بھاگا دیتی ہے۔ جب تک آپ دسترخوان پر چنے ہر طعام کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے تو ان کے بارے میں کیا خاک لکھ پائیں گے۔ چونکہ کھانا کھانے کے بعد شکرانہ نعمت ادا کرنا لازم ہے۔ ہم اللہ کا شکر اور میزبان کے لیے برکت کی دعاء کرنا کبھی نہیں بھولتے البتہ لکھنے میں کاہلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ہزاروں دوست احباب، رشتے ناتے، اپنے بیگانے  زندگی کے اس لمبے سفر کے دوران ہمیں کھلاتے پلاتے رہے ہیں۔ ان میں بہت کم یاد رہتے ہیں

حسرت ‏کی ‏یادیں

حسرت کی یادیں۔   (شیرولی خان اسیر) دی نہیں اس زندگی فانی نے مہلت چھین لی یاروں سے پیار و محبت! حلقہء یاراں کو ہے مشکل یہ فرقت آہ حسرت! آہ حسرت! آہ حسرت! 'داغ داغ ہو' مہجور تو، دل اسیر  ! پیاروں کو ہوئی وداغ کی جو عُجلت دل اور قلم نہیں مان رہے کہ گل مراد خان حسرت کو مرحوم لکھوں۔ شاید اس کی وجہ اس فانی زندگی کے لمبے سفر کی ہمراہی تھی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میں ان کی اس اچانک سفر آخرت اختیار کرنے کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ زندگی ایسی پرفریب ہے کہ موت یاد نہیں رہتی خاص کرکے اپنے پیاروں کی موت کی سوچ دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں پاتی یا ہم جو سن بوجھہ کر اس حقیقت کو بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب صدمہ واقع ہوتا ہے تو اپنے آپ کو یہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ میرا پیارا مرا ہی نہیں ہے۔ یہیں کہیں ہوگا۔ آج نہیں تو کل ملے گا۔ آج میرے بہت ہی عزیز بہنوئی، طویل عرصے کا لنگوٹیا یار، مشفق استاد گل مراد خان حسرت کی وفات کے چالیس دن گزر نے کے بعد بھی میرا دل اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ہیں۔ حقیقت کی سوچ کر دل لہولہاں ہو جاتا ہے۔ حسرت ص