ضلع ‏غیرز۔۔۔۔4

ضلع غیرز ۔۔۔4
غیرز کی بڑی وادی کو بہت سے لوگ جانتے ہوں گے جن کو اس وادی کے اندر سے گلگت سے چترال یا چترال سے گلگت سفر کر نے کا موقع ملا ہو البتہ بطور سیاح بہت کم لوگوں نے اس حسین وادی کو دیکھا ہوگا۔ جس طرح اس سلسلے کی پہلی قسط میں ذکر کیا تھا کہ غیرز کا ضلع گلگت کی طرف سے گاؤں گلاپور سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور گنجان آباد گاؤں شیر قلعہ ہی ہے جو دریا پار واقع ہے۔نام سے ظاہر ہے کہ یہاں کوئی اہم قدیم قلعہ ہوگا۔ میں نے صرف دور دور سے اس کا نظارہ کیا ہے جو جاذب نظر ہے۔ اگلی دفعہ اگر گلگت جانا ہوا تو انشاللہ شیر قلعہ ضرور دیکھوں گا اور اس کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال اپنے قارئین کو سناؤں گا۔
گلگت چترال روڈ پر گلاپور سے آگے دلناٹی کا چھوٹا سا خوبصورت گاوں ہے۔ اس سے آگے گوہر آباد آتا ہے۔ یہ بھی دلکش ہے۔ پھر گچ کی چھوٹی بستی ہے۔ دریا پار ریٹائرڈ کمشنر قمرشہزاد کا پیارا سا گاؤں جپوکئے واقع ہے۔ سڑک کے ساتھ اگلا گاؤں گلمتی ہے۔ سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر بوبر آباد ہے۔ ہر گاؤں درختوں میں چھپا ہوا حسن فطرت سے مالامال ہے۔
اس کے بعد سیاح  سنگل میں داخل ہوتا ہے۔  جس کے ساتھ ملحق گاؤں تھینگداس ہے جہاں میری بھانجی (پرکوسپ میں میرے سیکنڈ کزن میر بیاز خان مرحوم  کی بیٹی) اور اس کی بیٹی فرزانہ محب ( ایس ایس ٹی) کا گھر بھی ہے۔ ہم نے ان کی بہت ساری صیافتیں کھائی ہیں۔ سنگل اور تھینگداس دونوں ہموار زمینوں پر واقع آباد گاؤں ہیں۔ یہاں پر دریا کا بہاؤ بھی سست ہے۔ یہاں ہر قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے۔ خاص کرکے انگور، انجیر، انار اور سیب اعلے قسم کے ہوتے ہیں۔ اس گاؤں میں آغاخان ہیلتھ سنٹر بھی لب سڑک قائم ہے جو کافی بڑا ہسپتال سا لگتا ہے۔ یہاں ہر شئے کی دکانیں بھی سڑک کے اطراف میں قائم ہیں۔ سہولیات کے لحاظ سے سنگل ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ اس کے بعد ضلع غیرز کا صدر مقام گاہکوچ کا قصبہ ہے۔ گاہوکوچ دو بڑے بڑے حصوں پر مشتمل ہے۔ سڑک کے ساتھ واقع حصے پر سرکاری دفاتر، مارکیٹس اور دوسری سرکاری اور نیم سرکاری عمارتیں استادہ ہیں۔ گاہکوچ کا پرانا حصہ کوئی پانج چھ سو فٹ اونچی سطح مرتفع نما زمین پر آباد ہے جسے دیکھنے کا شوق ہے دیکھا نہیں ہے۔ گاہکوچ سے نیچے کا علاقہ قدیم زمانے میں پیاڑ ( پونیال) کے نام سے مشہور تھا اور یہ کہانی یا حقیقت بھی ہم تک پہنچی تھی کہ یہاں چڑیلیں رہتی تھیں۔ اس کی تحقیق ابھی باقی ہے۔
 گاہکوچ سے گزر کر مسافر روݰُن اور پھر گوپڅ میں داخل ہوتا ہے۔ گوپڅ کا نام ہم اہل چترال کے لیے جانا پہچانا ہے کیونکہ ہماری سابقہ مشترکہ تاریخ کے اندر یہ جگہہ حکمران نشین رہی ہے، یہاں قدیم قلعہ بھی موجود ہے جو آج تک سیاحوں کے لیے ناقابل رسائی رہا ہے پتہ نہیں کیوں؟ میں ہر گزرتے وقت خواہش بھری آنکھوں سے اس کا دروازے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں لیکن کہیں نظر نہیں آیا ہے۔ سنا ہے کہ آغا خان فاؤنڈیشن کا ادارہ تحفظ ثقافت اس کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ خدا کرے کہ یہ بات درست ہو۔ یہ قدیم عمارتیں اور ثقافتی آثار سیاحوں کی دلچسپی کی چیز  ہوتی ہیں۔گوپڅ سے کچھ ہی فاصلے پر جندروٹ کا گاؤں آتا ہے۔اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم نے 1960 میں شمالی علاقہ جات کے اپنے اولین دورے پر تشریف لاتے ہوئے یہاں قدم رنجہ فرمایا تھا اور یہ یہاں کے اسماعیلی مسلمانوں کے لیے پہلا موقع تھا کہ انہیں اپنے امام وقت کا دیدار نصیب ہوا تھا. اس سے پہلے ان علاقوں بشمول چترال کے اسماعیلیوں کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ چترال والے بھی وہاں جاکر اپنے امام وقت کا دیدار کیا تھا۔ اس لیے شمالی علاقوں اور چترال کے اسماعیلی برادری کو اس گاؤں کے ساتھ بڑی عقیدت ہے۔  
 جندروٹ سے آگے خھلتی کی بستی ہے۔ یہاں پہاڑی نالے کے سیلاب نے دریائے غیرز کی گزرگاہ بند کرکے گاؤں کے زیرین حصے غرق آب کر دیا ہے جہاں اس وقت ایک جھیل بن گئ ہے۔ خھلتی جھیل  بھی قابل دید ہے۔ یہاں سیاحوں کے لیے کشتی رانی کا انتظام ہو جائے تو اس وادی میں سیاحت کے فروع میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔یہاں سے کچھ فاصلے پر  دہیمال کا گاؤں دعوت سیرو نظارہ دیتا ہے۔ بتھرت نالہ راستے میں آتا ہے جو دریل سے آتے ہوئے دریائے غیرز میں بہتا ہے۔ پہلے زمانے میں داریل والے اس درے سے ہو کر غیرز والوں پر شبخون مارتے اور لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ اس وقت اس نالے کے دھانے پر بھی چند ایک داریلک گھرانے آباد ہیں اور پرامن لوگ بتائے جاتے ہیں۔ سوسوت ایک چھوٹا گاؤں ہے جہاں بھی پہاڑی نالے کے سیلاب نے دریائے غیرز کو جھیل میں بدل ڈالا ہے۔ یہ جھیل بھی قابل دید ہے۔پنگل، شمرن،چھݰی یکے بعد دیگرے واقع ہیں. بہت خوبصورت گاؤں ہیں۔ پھنڈار غیرز کا خوبصورت ترین گاوں ہے جہاں کا منظر مسافر کے پاؤں کی بیڑیاں بن جاتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ پہاڑی کے اوپر بیٹھے اسے دیکھتے رہیں۔ پہاڑیوں میں گھری مسطح سرسبز گاؤں جس کے بیچوں بیچ چھوٹی ندی جھیل بناتی ہوئی گزرتی ہے۔ یہاں سیاحوں کے لیے رہائش و طعام کا خاطر خواہ بندوبست ہے۔ ہمارے ایک بہت اچھے دوست عبدالجہاں خان  قرابش کا گھر بھی اس گاؤں میں ہے جن کی اپنی این جی او ہے اور جو علاقے کی ترقی میں بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ جہاں خان صاحب گلگت بلتستان اسمبلی میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔  ان کا گھر سڑک سے کافی ہٹ کر ہے اس لیے کبھی ان کا مہمان بننے کا شرف نہیں ملا ہے۔ 
پھنڈار سے آگے گولوغہ موڵی ،گولوغہ توری اور دریا کی دوسری طرف ہندراب پھر تیرو اور بارست یکے بعد دیگرے آباد ہیں یہ غیرز کے سرحدی گاؤں ہیں اور پرکشش ہیں۔ بارست کا گاؤں دو تین دھائی پہلے تک محض گرمائی چراگاہ تھا۔ گرمیوں میں مال مویشیوں کو لے کر تیرو اور گولوغی موڑی کے لوگ یہاں رہا کرتے ٹھے۔ آج کل یہاں مستقل رہائش رکھتے ہیں۔بارست کے اختتام پر ندی بہتی ہے جو وادی مستوچ کے چپاڑی اور کارگین کو تقسیم کرنے والی ندی "چمرکھن گول" کی جڑواں بہن ہے اور  چمرکھن ہی کہلاتی ہے۔ ان دونوں کا منبع مشہور درہ چمرکھن میں واقع ہے اور یہ درہ اہل غیرز اور مستوج کے درمیان آمدورفت کی گرمائی گزرگاہ بھی ہے۔
بارست سے دو تین کلومیٹر آگے لنگار نام کی چراگاہ ہے۔یہ دو تین دھائی پہلے جنگلی درختوں میں  روپوش ایک ہموار گھاس کا میدان تھا جس کی صاف ستھری ندی میں ٹراؤٹ مچھلیاں وافر تعداد میں رہتی تھیں۔ آج یہاں ایک درخت بھی نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح مچھلیاں بھی نظر نہیں آ رہیں۔ پتہ نہیں اسے کیوں اجاڑا گیا۔ یہ جگہہ سیاحوں کی مقبول ترین جائے قیام تھی۔ 
ضلع غیرز پر تفصیلی تحریر اس وقت ممکن ہے جب گاؤں گاؤں گھومنے اور ہر گاؤں کے بڑے بوڑھوں سے ملنے کا موقع مل جائے۔ جن گاؤں کا مختصر ذکر ہوا ان کے علاؤہ درجنوں چھوٹے چھوٹے گاؤں دریائے غیرز کے اطراف میں آباد ہیں جن کے ناموں کے بارے معلومات حاصل کرنا باقی ہے۔یہ ایک مختصر تعارف ہے۔ کمی بیشی کو نظر انداز کیا جائے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی