Posts

Showing posts from November, 2018

قلمقو ژوئے

وادی یارخون کے قدیم ترین گاونوں میں ایک گاؤں بانگ بھی ہے۔ آج تک یارخون میں قدیم ابادی کی نشاندھی کسی مورخ یا ماہر آثار قدیمہ نے  نہیں کی ہے تاہم قدیم درختوں اور قبروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ گاوں بانگ  یہاں کے قدیم ترین گاونوں میں سے ایک ہوسکتا ہے۔ اس کے دو حصے بانگ پائین اور بانگ بالا ہیں۔ ان دونوں حصوں کا فقط تھوڑا سا حصہ قدیم سے آباد تھا۔ بانگ پائین کا ڈام اور اردگرد کا حصہ اور بانگ بالا کی سب سے نیچلی نہر کے نیچے کا حصہ جو موجودہ سڑک سے دریا کی طرف کا حصہ ہے یعنی سوروگاز سے ملحق سیدانن دہ ، غورغوڑونگ، بیگاندور اور لوانڈوک۔ بانگ بالا کی دوسری نہر قلمقو نیزیرو ژوئے" یعنی قلماق کی بنائی ہوئی نہر کے نام سے مشہور ہے۔ قلماق کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی وحشی اور درندہ صفت قوم تھی جو شمال سے آکر اس وادی میں لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم  کیا کرتی تھی۔ یہاں لوگوں کا جینا حرام تھا۔ اس لیے لوگ ان کی آمد کا سن کر پہاڑوں میں غاروں کے اندر چھپ جایا کرتے تھے۔اس نہر کی تعمیر کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے۔  زوندران یارخون کے ایک پڑ پڑ دادے کا نام کافر پشاڑ تھا
  انتہا کی مہنگائی اورعوام کی خاموشی شیرولی خان اسیر پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی مہینوں میں مہنگائی تاریخ کی سب سے اونچی سطح کو چھو رہی ہے۔ معاشی لحاز سے پست  طبقے کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ ڈالر کی قیمت بھی بلند ترین   سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اب جس کی تنخواہ یا   آمدنی   بیس ہزار تھی وہ اپنی قدر کے لحاظ سے   17 ہزار سے بھی کم   رہ گئی ہے۔   تیل کی قیمتیں بڑھنے سے گاڑیوں کا کریہ بھی بڑھ گیا ہے۔   کم آمدنی والے شہری اس وقت   سخت مشکل میں ہیں۔ اس تمام کے باوجود عوام پریشان نہیں ہیں۔ جہاں تک حذب مخالف کی چیخ و پکار کا تعلق ہے وہ خالص سیاسی نوعیت کی ہے۔ عوام کے اس صبرو تحمل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کچھ بھی کرے وہ   برداشت کرتے جائیں گی۔   اس وقت وہ حکومت کو سانس لینے کا موقع دے رہی ہیں۔ انہیں اس بات کا تجربہ ہے کہ تین چار مہینوں میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ انتخابی دعوا وں سے بھی عوام پوری طرح باخبر ہیں کہ   یہ محض الیکشن جیتنے کے حربے ہوتے ہیں۔   آج کی عوام پہلی والی سیدھی سادھی بھی نہیں رہی ہے۔ ہمارے بین الاقوامی کاذب سیاسی لیڈروں   کے ساتھ رہ رہ کر، انہیں آز

اسیرو زندگی۔۔۔۔۱۳

اسیرو زندگی ۔۔۔۱۳   اویلو ݯھوغیار اچی وا کندوری ݯحوغی ارو رے ناگہہ کوس بشار کورارو گوئے، ہیرین دیتی اچھو ݯھوغیان لوو دک دی ضروری مگم ہنیسے نو دوم۔ ہار قصہ تان وختو سُم باو گوئے۔ فلحال اسکولو چے سبقو لوان دوسی کوریکوکہ ہتے زندگی مہ یادار نو بیران۔  ہتے جو تروئے سال مہ زندگیو جم سال نو اوشونی۔ مہ تتو چے مہ میکی حبیب اللہ خان کہ ہسے امیر نمو سورا زیادہ مشور اوشوئے او نسہ مہ تے نالائق رے غیرت بیگ استاد مہ بئیزت کوری پیڅھی استئے۔ ہسے مہ ژنہ گلمیخ بتی بہچی اوشوئے۔ تان نالائیقیو دودیری کوری تان عزتو بحال کوریکو بچے چھویو درونگار نشی اورارو پالیک تان ژاغا۔  تے اچتو ریزگیلئیو میکیو ومدار بتی غمژونی بہچیتم۔ ومداریار خلص بکو بچے تاندوری تن ݯھوغ دی چوکیتم۔ ہسےسُم جُستہ اردوا نالائیقیو فکر غیچہ اورارو اوئے۔ ہتے زمانو نو روخڅک کیہ نوژان نو۔ بریکہ پت نو رخڅم۔ ۔  جوو جماعتہ پاس بتی ترویا ہاتم مگم اردوو مہ سُم خروݰی تن بہچیتئے۔ نہ عبارتو پتہ دوم نہ ترجمو۔ املا ریکو بو دودیری لو۔ہتے سالو موژی ہونزیک استاد محمد کریم دی بدل ہوئے۔  ہتو ژغا ای نوجوان استاد ہائے۔ ھ نوغ استادو نم سید دینار علی شاہ اوشوئے۔
Image
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بونی چترال   کی مخدوش حالت کا ذمے دار کون؟                                                                                                                                     [AH1]   پیچھلے سال نومبر کی کسی تاریخ کو بونی کے سرکاری ہسپتال جانے کا اتفاق ہواتھا۔ ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر رونا آیا تھا اور اس کی حالت کا نقشہ میں نے آن لائین اخبار چترال ٹوڈے کے صفحوں کی وساطت سے دکھایا تھا   آج پورا ایک سال بعد پھر اس "اجڑی بستی" کو پوری طرح دیکھا کیونکہ یہ ہمارا واحد ہسپتال ہے جہاں تھوڑی بہت طبی امداد سب ڈویژن مستوج کےغریب مریضوں کو مفت ملتی ہے۔ اس ہسپتال کو دو تین سال پہلے محکمہ صحت کے پی کے   نے کیٹیگری سی ہسپتال کا درجہ دیا تھا اور نئی عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈ مختص کیا گیا تھا۔ بپچھلے سال یہاں کا جو نقشہ سامنے تھا   ایک سال گزرنے کے باجود اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ہے ۔ اس کی چاردیواری وہی   ٹوٹی پھوٹی، رات کو ہسپتال کے اندر آوارہ کتوں کا وہی راج، وہی گندگی، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی رہائش گاہیں وہی خستہ حال اور خطرناک حالت میں، نئی