انتہا کی مہنگائی اورعوام کی خاموشی
شیرولی خان اسیر

پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی مہینوں میں مہنگائی تاریخ کی سب سے اونچی سطح کو چھو رہی ہے۔ معاشی لحاز سے پست
 طبقے کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ ڈالر کی قیمت بھی بلند ترین  سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اب جس کی تنخواہ یا  آمدنی  بیس ہزار تھی وہ اپنی قدر کے لحاظ سے  17 ہزار سے بھی کم  رہ گئی ہے۔  تیل کی قیمتیں بڑھنے سے گاڑیوں کا کریہ بھی بڑھ گیا ہے۔  کم آمدنی والے شہری اس وقت  سخت مشکل میں ہیں۔ اس تمام کے باوجود عوام پریشان نہیں ہیں۔ جہاں تک حذب مخالف کی چیخ و پکار کا تعلق ہے وہ خالص سیاسی نوعیت کی ہے۔
عوام کے اس صبرو تحمل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کچھ بھی کرے وہ  برداشت کرتے جائیں گی۔  اس وقت وہ حکومت کو سانس لینے کا موقع دے رہی ہیں۔ انہیں اس بات کا تجربہ ہے کہ تین چار مہینوں میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ انتخابی دعوا وں سے بھی عوام پوری طرح باخبر ہیں کہ  یہ محض الیکشن جیتنے کے حربے ہوتے ہیں۔  آج کی عوام پہلی والی سیدھی سادھی بھی نہیں رہی ہے۔ ہمارے بین الاقوامی کاذب سیاسی لیڈروں  کے ساتھ رہ رہ کر، انہیں آزما آزما کر یہ بہت حد تک بیدار اور چوکنا ہو گٴی ہیں۔ وہ مزید بے وقوف نہیں بنیں گی۔
عوام کا صبرو تحمل قابل قدر ہے اور مخالف سیاسی قوتوں کا شورشرابہ  اقتتدار کی لڑائی ہے۔ یہ اقتدار غریب عوام کے حصے میں اس وقت تک آنے والا نہیں ہے۔ جب تک اس ملک کی سیاست پر خان خوانین، نواب زدوں، چودھریوں، پیر مرشدوں، زمینداروں اور وراثتی سیاسی پارٹیوں کے سیاستکاروں کا تسلط قائم ہے۔ عوام ان چند خاندانوں کی کٹ پتلی بنی گزشتہ اکہتر سالوں سے ان کے پرفریب ساز پر ناچتی رہی ہے۔ اس مرتبہ ایسا لگ رہا ہے  کہ عوام نے شعور سنبھالا ہے۔ اب آگے وہ مزید بے جان کھلونا نہیں بنیں گی۔
یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ان کی جیب میں  بھی کھوٹے سکے ہیں۔ وہ کھوٹے سکے کہاں گئے ؟ کہیں بھی نہیں گئے بلکہ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت اگر دس فیصد کھوٹے سکے پاکستان کی نو زائیدہ مملکت کے اقتتدار میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے تو آج ان کی تعداد ۵۰ فیصد سے اوپر ہوگی۔ان کی نسل زیادہ پھیل گئی ہے۔  یہ کھوٹے سکے عمران خان صاحب کے کی جیب میں بھی ہیں۔ ملک کے اندر ہر چیز میں جو اتنی ملاوٹ ہوئی ہے کہ کوئی چیز خالص نہیں ملتی تو ہماری سیاست کس طرح خالص ہوگئی؟ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ عمران خان صاحب اپنی پارٹی کو کرپٹ لوگوں سے جلد از جلد پاک کریں تو یہ ان کی حماقت ہے۔ اگر قائداعظم جیسے لیڈر اپنی پارٹی کو ان سے نہ بچاسکے تو خان صاحب کس طرح بچا پائیں گے؟ ہمیں اپنے وزیراعظم عمران خان صاحب کو موقع دینا چاہیے۔ ان مشکل حالات میں اگر عوام نے ان کا ساتھ دیا تو ہمیں پوری امید ہے کہ وہ اس بحران سے ملک کوباہر نکال لیں گے۔
خدا ناخواستہ اگر ہم حذب مخالف کی چیخ و پکار اور شدت پسندوں کی آواز کو اہمیت دی تو ملک مفاد پرست عناصر کے قبضے سے آزاد ہونے والا نہیں ہے۔  قارئین یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ  راقم الحروف کا تعلق اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے۔ ایک سماجی کارکن اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک کی غریب عوام سے گزارش ہے کہ ہمیں عمران خان کی حکومت کو پورا موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنے منشور کے مطابق کام کرسکے۔ ہم نے پی پی پی اور نون لیگ کو تین تین مرتبہ ملک چلانے کا موقع دیا ہے۔ اس بار ان کی سیاسی اجارہ داری ٹوٹ گئی ہے۔ ان دونوں پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کی کوشش ہوگی کہ یہ حکومت ناکام ہو۔ اگر وہ ملک و قوم کی خیرخواہ ہیں تو پی ٹی آئی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش نہیں کریں گی اور اسے ٹینیور پورا کرنے کا  موقع دیں گی۔۔   اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ایک سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ اسے گرانے کی کوشش یا کام نہ کرنے دینے کی ہتھکنڈے  ملک اور قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی