Posts

Showing posts from April, 2019

اوٹگُݰ کورک

 کھوار کی واحد لغت جناب ناجی خان ناجی نے لکھی ہے جو میرے پاس نہیں ہے اس لیے "اوٹگُݰ کورک"  کا درست معنی یا مطلب بتا سکوں گا یا نہیں اس بارےبکچھ نہیں کہہ نہیں سکتا۔ ویسے بھی اہل تورکھو اپنے آپ کو اصلی اہل زبان گردانتے ہیں۔ مجھے یہ فعل کسی کھوار تحریر میں آج تک نظر نہیں آیا ہے۔ اس لیے رائے دینے کی سب کو دعوت ہے۔  عملی زندگی میں اس فعل کا استعمال روز کا معمول ہے۔  ہم انسانوں میں بہت کم ایسے افراد موجود ہیں جو اپنے         بارے میں کسی سچی تنقید کو  خوشدلی سے قبول کریں گے۔بماری اکثریت اس بردباری سے محروم ہے۔ جب کوئی میرے سامنے میری رائے کے خلاف بولے یا میری غلطی کی نشاندھی کرے تو میں اسے برا مناتے ہوئے کچھ بولے بغیر محفل سے اٹھ کر چلا جاؤں تو میرے متعلق کہا جائے گا کہ " ہیس اوٹگݰُ کوری پیڅھی بغئے" یعنی اس نے برا منایا اور محفل سےچلا گیا۔ اسی طرح میں اپنے بیٹے یا کسی برخوردار کو کسی کام کے کرنے کا کہتا ہوں۔ وہ کسی وجہ سے بروقت حکم بجا نہیں لا پاتا اور میں اٹھ کر وہ کام خود کرنے لگ جاتا ہوں۔ تو میری یہ حرکت " اوٹگُݰ کورک" کہلائے گی۔ یامیری کسی بات پر ناراض ہوکر

مذہبی ہم آہنگی

عرصے سے ایک سوال میرے ذہن پر سوار رہا کہ  آخر اپنے چترال کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کون سی بات ہے یا کون لوگ ہیں جو پرامن ماحول نہیں چاہتے؟                ماضی کا مطالعہ کیا جائے تو بیسویں صدی کے نصف اول کے دوران مولائیوں ( اس زمانے میں اسمعیلی مولائی کہلاتے تھے) کو سنی مسلک اختیار کرنے کی ظرف راغب کرنے کی کوششیں ہوئی تھیں جس میں حکمرانان وقت کا ہاتھ تھا۔ اس کےبعد 1982  میں پہلی دفعہ چترال میں سنی اسمعیلی تصادم ہوا جس میں دونوں طرف سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ دونوں طرف کے مقتولین کو ان کے فرقوں کی طرف سے شہادت کا درجہ دیا گیا۔ اس مذہبی تصادم کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا یہ معلوم نہ ہوسکا کیونکہ سرکار ایسے واقعات پر مٹی ڈال دینے کی روایت پر قائم تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے پرامن لوگ اس ناخوشگوار واقعے پر انتہائی  افسوس کیا اور اب بھی کرتے ہیں۔ اسمعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا یزہائنس پرنس شاہ کریم الحسینی آغاخان نے بھی اس موقع پر انتہائی دکھ اظہار کیا تھا۔ اس افسوسںناک حادثےکے بعد چند ایک تصادم کے حالات پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ مجموعی طور پر بفضل خد

سیاسی مداخلت کی کہانی

یہ 2003 تھا۔ متحدہ مجلس عمل کا (سابق) صوبہ سرحد کا اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد محکمہ تعلیم سے سیاسی مداخلت کا بوریا بستر اٹھوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان بقراطوں نے صرف ایک "مجرب" نسخے کے ذریعے سب کچھ درست کرنے کا سہانا خواب دیکھا اور محکمہ تعلیم کو تدریسی اور انتظامی شعبوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا۔  تجاویز تیار کی گئیں کہ اسسٹنٹ سب ڈویژنل آفیسر سے لےکر اگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر اور اسسٹنٹ ڈئریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کا انتخاب صوبائی پبلک کمیشن کے ذریعے کرایا جائے گا۔ تجاویز کو ختمی شکل دیدی گئی۔س سینئیرسٹافایسوسی ایشن نے سرکار کےاس فیغکےکی مخالفت کی۔ اس بابت سیکرٹری محکمہ تعلیم کے ساتھ چند ایک ناکام میٹنگیں ہویں۔ آخری میٹنگ سے سیکرٹری صاحب نے واک آؤٹ کرگیا کیونکہ ان کے پاس ہمارے اعتراضات کا معقول جواب نہیں تھا۔ حکومت کا موقف تھا کہ انتظامی کیڈر کو صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سلیکٹ کیا جائے اور ٹیچنگ سے الگ کیا جائے  تو سیاسی مداخلت بند ہو جائے گی۔ ہماری دلیل تھی کہ اس اقدام سے سیاسی مداخلت اور بڑ جائے گی۔ صوبائی سطح پر سکیکشن کا مطلب یہ ہوگا کہ زی

یہ الزام تراشیاں؟

ہوش سنبھالنے کے بعد جب تھوڑا سا سیاسی شعور پیدا ہوا ہے اس دن سےمیں ہر حزب اختلاف کے منہ سےحزب اقتدار پر اور ملکی اداروں پر جانب داری کے الزامات سنتا رہا ہوں۔ اسی طرح اقتدار والوں کی طرف سے سابقہ حکومتوں پر ملک لوٹنے یا ملک کے مفادات کا  سودہ کرنے کے الزاما ت کا ٹھپہ لگتا رہا ہے۔ دعواوں میں کتنی صداقت تھی یا کتنا جھوٹ تھا اس کا پتہ نہ چل سکا۔ سرکاری ملازم کی حیثیت سے ملک میں جمہوری اور فوجی حکومتوں  کے ماتحت کام کیا اور ان کا قریب سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ کس نے نسبتاًاچھی حکومت کی اور کس نے بری حکمرانی کی اس کا بھی اپنی سمجھ کے مطابق علم حاصل ہوا۔  حیرانگی یہ رہی کہ سیاسی لیڈروں نے ہمیشہ عوام کو بے وقوف سمجھا اور بنایا بھی۔ دوسری طرف عوام کو بھی باشعور ہوتے نہیں دیکھا۔ اپنے لیڈروں کے منہ سے جو جھوٹ  سنا اسے پیر و مرشد کا فرمانا مانا۔ ہر پارٹی کے رہنما اپنے ووٹروں کی نظروں میں فرشتہ ہی نظر آیا اور مخالف پارٹی والے سارے شیطان کے چیلے لگے۔ اس طرح عوام الناس چند سیاسی مداریوں کے ہاتھوں میں کھلونےبنتے رہے۔ ملک لٹتا رہا۔ عوام غربت کی چکی میں پستی رہی مگر لیڈروں کے حق میں گلے پھاڑ  کر نعرے لگ