مذہبی ہم آہنگی

عرصے سے ایک سوال میرے ذہن پر سوار رہا کہ  آخر اپنے چترال کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کون سی بات ہے یا کون لوگ ہیں جو پرامن ماحول نہیں چاہتے؟               
ماضی کا مطالعہ کیا جائے تو بیسویں صدی کے نصف اول کے دوران مولائیوں ( اس زمانے میں اسمعیلی مولائی کہلاتے تھے) کو سنی مسلک اختیار کرنے کی ظرف راغب کرنے کی کوششیں ہوئی تھیں جس میں حکمرانان وقت کا ہاتھ تھا۔ اس کےبعد 1982  میں پہلی دفعہ چترال میں سنی اسمعیلی تصادم ہوا جس میں دونوں طرف سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ دونوں طرف کے مقتولین کو ان کے فرقوں کی طرف سے شہادت کا درجہ دیا گیا۔ اس مذہبی تصادم کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا یہ معلوم نہ ہوسکا کیونکہ سرکار ایسے واقعات پر مٹی ڈال دینے کی روایت پر قائم تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے پرامن لوگ اس ناخوشگوار واقعے پر انتہائی  افسوس کیا اور اب بھی کرتے ہیں۔ اسمعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا یزہائنس پرنس شاہ کریم الحسینی آغاخان نے بھی اس موقع پر انتہائی دکھ اظہار کیا تھا۔
اس افسوسںناک حادثےکے بعد چند ایک تصادم کے حالات پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ مجموعی طور پر بفضل خدا پرامن زندگی گزر رہی ہے تاہم خطرہ ہر وقت سرپر منڈلاتا نظر آتا ہےکیونکہ امن کے دشمن بھی کم نہیں ہیں۔ بیرونی دشمن بھی اس کوشش میں لگےرہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے حساس علاقوں میں بدامنی پھیلائی جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مقامی ایجنٹ ڈھونڈتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے اپنے اندر چند ناداں  انتہاپسند اس خوشفہمی میں مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں کہ اس طرح وہ مجاہد بن کرجنت کے حقدار ٹھہریں گے۔ اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو اس طرح کی حرکتوں سے اسلام  کو فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوتا رہا ہے۔ فرقہ واریت نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور اسلام دشمنوں کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کسی ملک میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے والے اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں کیونکہ اس سے ملکی ترقی رک جاتی ہے اور عوام  عدم اتحاد کا شکار ہوکر اپنی اجتماعی حفاظت اور ترقی بھول جاتی ہے جس سے پوری قوم اور ملک کو شدید خطرہ  لاحق ہوسکتا یے۔
 ہمارے چترال میں اس قسم کے لوگ موجود ہیں۔جو کسی بھی وقت فساد پیدا کرسکتے ہیں۔مجھ پر فتویٰ نہ لگایا جائے تو میرے تجربے کے مطابق ایسے ناخوشگوار واقعات کی ابتدا زیادہ تر سنی برادری کی طرف سے ہوتی ہے گوکہ اسمعیلی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ خاص کرکے انتخابات کے دنوں یہ مذموم کوشش ہوتی ہے۔ اگر سنی بھائی اسمعیلیوں پرکفر کی تہمت دھرنا بند کر دیں تو اسمعیلیوں کی طرف سے پیار محبت کے سوا کوئی جواب نہیں پائیں گے۔
2003
 اور2017  میں جب ہزہائنس چترال تشریف لائے تھے تو دونوں مواقع پر سنی برادری کی طرف سے ان کا پرجوش اور شاندار استقبال کیا گیا اور بونی اور نواحی علاقوں کی سنی برادری نے ہزاروں زائرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرا کر اعلیٰ ترین روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جس  کی یادیں ہر اسمعیلی اور ان کےامام کے دل میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی۔ اہل سنت والجماعت کا وہ کردار مذہبی ہم آہنگی کی طرف بہت ہی خوبصورت قدم تھا جسے ہر عقلمند آدمی نے سراہا۔
بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس خوشگوار ماحول میں تلخی پیدا کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے وہ بھائی ہیں جو اسمعیلیوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے اور یوں نہ صرف ان کا دل دکھاتے بلکہ خود بھی اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں۔اللہ پاک کلام مجید کی سورت الانعام، آیت نمبر 118 میں فرماتے ہیں۔،(ترجمہ) کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو اور تمہیں کیا ہوا کہ اس میں سے نہ کھاوجس پر اللہ کا نام لیا گیا۔ وہ تم سے مفصل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا  مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو اور بیشک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے، بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے  " اور اسی سورت کی آیت نمبر  145 میں فرماتا ہے "(اے  رسول ص)تم فرماو میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی ہے کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو  یا رگوں کا بہتا خون  یا بدجانور کا گوشت  وہ نجاست ہے  یا وہ بے حکمی کا جانورجس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا"   اسمعیلیوں اور سنیوں کی ایک ہی دعا ہے  جانور ذبح کرنے کے لیے۔ "بسم اللہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر وللہ الحمد" اس کے ساتھ کھوار زبان میں یہ بھی کہتے ہیں کہ خاص اللہو نمہ حلال کومن۔ اس کے باجود اس گوشت کو اپنے اوپر حرام کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟
میرے علم آیا ہے کہ بعض گاؤں میں ردعمل کے طور پر اسمعیلی بھی سنی بھائیوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے ہیں۔ اس طرح بھائیوں اور قریبی عزیزوں میں دوریاں جنم لے رہی ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ چترال میں دونوں فرقے قدیم سے خونی رشتوں میں جڑے ہوئے لوگ ہیں۔ ایک بھائی سنی ہے تو دوسرا اسمعیلی، باپ اسمعیلی ہے تو بیٹا یا بیٹی سنی۔ ان کی خوشی غمی ایک ہوتی ہے۔
دونوں فرقوں سے میری دردمندانہ گزارش ہے کہ خدا را ہم میں رقابتیں اور دوریاں  پیدا کرنے والے حالات پیدا کرنے سے اجتناب کریں اور ہمیں حسب سابق پرامن بھائی چارے کے ماحول میں چند روزہ زندگی جینے دیں۔
۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ