Posts

Showing posts from August, 2019

زندگیو سفار 20

میستُچو مڈل اسکولہ سبق ریکو موژی جو مکالا سخت لہاز ہوتم۔ ای چھویو مه پزو ہاݰ  ورینز ݯوکیتئے کہ تھویک توریرو غون سریتئے۔ موژغیشٹی تتیو نسو پوراوتم۔ آوا ژریغ کوری روپھیکو مه تاتی دی روپھائے۔ورینز مه دمو چک کوکا پرائے۔ تاتی مه گانی دوروتے اوائے۔ چونݮیک نن دی روپھیتئے۔ رُوشُونو پیݯ کوراو مه  پزہ لاکھیکو پھُک ہھلش سریر۔ رُوشُن اوݰک بکو اچی ݯھامیر۔ ھ زائلہ روشتی خومیتئے۔ آوا دورو نخی نسی پورتم۔ چونݮیک نن چھؤچو ہاسیوتے تاو پیڅھتئے۔ ہارونیا سونوغرو طبیب خلفہ گلاس شومہ سلام کوری یی اوتیتئے۔ گیتی نشی بشارحوالار پروشٹی مه ویلٹی لوڑی چونجیک  ننو سار بشار اریر " مه ھ پھُک ژاوو کیاغ ݯھامیرانا مه ژور؟" نن توتے لو پرائے کہ ہیہ چھویو ورینز چوکی اسور۔طبیب مه تے ریکی " اے مه ژاو کھاپسن دیا؟" آوا دی ریکو  متے ریکی "کھوپی اف تھوے" آوا کھوپی اف تھویکو لیئے آموشتہ تھورو یی نسائے۔ ہارونیا خلفہ ریکی " او ژاو تو زتُکجم بیرو براو"۔ چونݮیک ننوتے کاویر انگیے ریتئے۔ یکدم کاویرن اوغو لاچھے مه پئیتئے۔ تھمام گرم ژیبارمن و چے پیارمن وا پوشور متے پرفیز اریر۔ ای مسہ پت آوا وے ہوݯو

لعل آباد یارخون

میرے بہت سارے دوست یہ جاننا شاید پسند کریں کہ لغل آباد کہاں ہے اور اس کی تاریخ و جغرافیہ کیا ہے؟ چونکہ چترال کے سارے پرانے گاؤں یہاں کے پرانے گاؤں اور بستیوں کے نام یہاں کے باسیوں کے علم میں ہیں تاہم نواباد بستیوں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔ اس لیے آج میں لغل آباد کے متعلق کچھ لکھنا چاہوں گا۔ یارخون کے ایک قدیم گاؤں بانگ کے اختتام پر شمال مشرق میں ایک خشک برساتی نالے چوکیست کا دامن ابھرا ہوا ملےگا جہاں سے آگے کی وادی نظر آتی ہے۔ اس ابھار کو ہونگیروو ٹیک (سیلابی ابھار) یا ویریغیو ٹیک( نظارے کا ابھار) کہتے ہیں۔ یہ جگہ بانگ بالا اور لغل آباد کی حدبندی ہے۔ یہاں سے تا حدود پترا گاز دریائے یارخون کے شمال مغرب میں تقریباً 13 سو میٹر لمبی اور 600 میٹر چوڑی ڈھلوان سبز پٹی نظر آئے گی۔ یہ چھوٹی نو آباد بستی لغل آباد کے نام سے موسوم ہوئی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ بنجر زمین زوندران یارخون کی موروثی شاملات تھی اور مختلف ناموں سے پکاری جاتی تھی۔ اس کے بانگ کی طرف کا حصہ حمالی اوڅ ( حمال کا چشمہ)، اس سے آگے نوغوران ٹیک ( قلعوں کا ابھار), اس سے آگے ریچولشٹ ( ریچ کا میدان)،اس سے آگے چارغیری ( گرتا ہوا ٹ

دورہ ترکی سلسلہ 7

پرنس آئی لینڈز استنبول میں نے اپنی ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ استنبول ترکی میں بھی مجھے پیار کر نے والے شاگرد مل گئے تھے۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان سے ہزاروں کلومیٹر دور  مملکت ترکی میں بھی کوئی شناسا ملے گا۔ استنبول پہنچنے کے اگلے روز ایک واٹس ایپ کال آئی۔ وصول کیا تو دوسری طرف کوئی پشتو لہجے میں اردو بول رہا تھا۔ اپنا تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ واجد علی خان ہائر سیکنڈری سکول نمبر چار مردان میں میرا شاگرد رہ چکا ہے اور فیسبک پر میری اور بیگم صاحبہ کی تصویر دیکھی تھیی جس میں میں نے اپنی استنبول روانگی کا بتایا تھا۔ چونکہ برخوردار واجد فیسبک کے دوستوں میں شامل تھا اس لیے میری پوسٹ پڑھی اور فیسبک کے واسطے سے  رابط استوار کرلیا۔ اپنے ایک شاگرد کی طرف سے رابط کرنے میں پیشقدمی نے دل خوش کردیا اور اپنے اللہ اور پیشے کا شکر ادا کیا کہ اس سردمہر دنیا میں مہرومحبت کا اس طرح کا اظہار بلاشبہ رب کائینات کی عظیم مہربانی تھی۔ واجد علی نے یہ بھی بتایا کہ اگر ہم استنبول آنے سے ایک ہفتے پہلے ان سے رابط کرتے تو بہت سستی رہائشگاہ کا انتظام بھی ہوسکتا تھا۔ واجد علی نے ہم سے آنے والے اتو