دورہ ترکی سلسلہ 7

پرنس آئی لینڈز استنبول

میں نے اپنی ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ استنبول ترکی میں بھی مجھے پیار کر نے والے شاگرد مل گئے تھے۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان سے ہزاروں کلومیٹر دور  مملکت ترکی میں بھی کوئی شناسا ملے گا۔ استنبول پہنچنے کے اگلے روز ایک واٹس ایپ کال آئی۔ وصول کیا تو دوسری طرف کوئی پشتو لہجے میں اردو بول رہا تھا۔ اپنا تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ واجد علی خان ہائر سیکنڈری سکول نمبر چار مردان میں میرا شاگرد رہ چکا ہے اور فیسبک پر میری اور بیگم صاحبہ کی تصویر دیکھی تھیی جس میں میں نے اپنی استنبول روانگی کا بتایا تھا۔ چونکہ برخوردار واجد فیسبک کے دوستوں میں شامل تھا اس لیے میری پوسٹ پڑھی اور فیسبک کے واسطے سے  رابط استوار کرلیا۔ اپنے ایک شاگرد کی طرف سے رابط کرنے میں پیشقدمی نے دل خوش کردیا اور اپنے اللہ اور پیشے کا شکر ادا کیا کہ اس سردمہر دنیا میں مہرومحبت کا اس طرح کا اظہار بلاشبہ رب کائینات کی عظیم مہربانی تھی۔
واجد علی نے یہ بھی بتایا کہ اگر ہم استنبول آنے سے ایک ہفتے پہلے ان سے رابط کرتے تو بہت سستی رہائشگاہ کا انتظام بھی ہوسکتا تھا۔ واجد علی نے ہم سے آنے والے اتوار کو ہمیں گھمانے کا وعدہ لیا اور سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مقررہ دن کی صبح باسفورس کی مقامی بندرگاہ میں ہماری ملاقات ہوئی۔ واجد کے ساتھ اس کا دوست عزیز بھی تھا جس کا تعلق شہبازگھڑی سے ہے۔ دونوں بچے چوبیس پچیس سال کی عمر کے لگے اور دونوں انتہائی منکسرالمزاج ثابت ہوئے۔ انہوں نے ہمیں لے کر ایک بڑی کشتی میں سوار ہوئے اور آن کی آن میں ہادی محمد غوث اور اس کے بابا کے ساتھ گل مل گئے۔
کم و بیش ایک گھنٹے کے آبی سفر کے بعد ہم استنبول کے 9 جزائر میں سے ایک کے کنارے پہنچ گئے۔ کشتی کا سفر بڑا اچھا تھا۔ ہم چھ ساتھ جزیروں کے پاس سے گزرے۔ ہر ایک اپنی طرف کھینچ رہا تھا کیونکہ سمندر کے بیچوں بیچ سرسبزوشاداب قدرتی ٹیلوں کا نظارہ مسحور کن تھا۔ ہم نے اس سفر کا خوب لطف اٹھایا۔ جب جزیرے میں داخل ہوئے تو ایک الگ سی دنیا لگی جہاں گاڑی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ موٹر سائیکلوں کے رکشے اور گھوڑوں کی بگھیاں بکثرت تھیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ موٹر سائیکلوں کے سائلینسرز بالکل خاموش تھے۔ ہمارے ملک کی طرح سمع خراشی اور فضائی آلودگی بالکل بھی نہیں تھیں۔ سمندر کے کنارے قائم ریستوران سیاحوں سے بھرے تھے۔ کوئی شراب پی رہا تھا تو کوئی شیشہ پھونک رہا تھا تو کوئی ترکی چائے کا لطف اٹھا رہا تھا۔ ہم نے ایک بگھی کرایے پر لیا اور جزیرے کی سیر کو نکل پڑے۔ ایک طرف سے چڑھائی چڑھتے گئے اور اس چھوٹے سے جزیرے کی چوٹی تک پہنچ گئے جہاں بھی کیفی ٹیریا موجود تھے۔ ساری زمین رنگ برنگے درختوں اور پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے مناظر کے درمیاں گھوڑوں کی لید کی بدبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھوڑوں کے اصطبل میں داخل ہوئے ہوں۔  سمندر کے درمیاں واقع اس چھوٹے سے قطعہ زمین پر ہزاروں کی تعداد میں گھوڑے موجود تھے۔ اس لیے لید اور پیشاب کی بدبو کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم نے عرصے بعد اس شاہی سواری کا لطف اٹھایا تھا۔ اس لیے لید کی بدبودار فضا کو صرف نظر کر دیا۔
سمندر کے کنارے سمینٹ کے پشتے پر بیٹھ کر ہم نے چوس پیا۔ یہاں مہنگائی استنبول شہر کے مقابلے میں دوگنی تھی۔ اس کےباوجود سیاحوں کی قطاریں لگی تھیں۔ کوئی ڈھائی تین گھنٹے پرنس آئی لینڈ کی سیر کے بعد اتفاق سے ہم اسی کشتی میں واپس آئے جس میں گئے تھے۔ ویسے کشتیوں کی تعداد بکثرت تھی جو مسلسل پھیرے لگا رہی تھیں۔ہمارے ملک کے شہر کراچی کے سمندر کےاندر بھی خوبصورت جزیرے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں سیاحوں کے لیے دلکش بنانے کی کسی حکمرانان وقت  نے زحمت نہیں کی۔ ہمارا ساحل سمندر بھی سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے اگر حکومت کی توجہ اس طرف ہوجائے۔
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی