Posts

Showing posts from January, 2022

سال غیریک/ پھاتک دک

ای مکالا عظمت خان برار ای پوسٹ کوری استئے،" ݰوݰپ"۔جم نویشی اسور۔ ݰوشپو نمو و صفتان لوڵی مه سال غیریک مه یادی ہائے۔ اسپہ "عقلمن" مذہبی لوٹھورانن براکتہ بیارو روئے سال غیریکو روخڅتانی۔ یارخونو پترانگازہ ای قاضی بیہچی استئے، سید معظم شاہ، ہسے دی دنیار سفار کوری سالوتے ہائے۔ مرحوم قاضی سال غیریکو اعلان کوراور۔ آوا وچے ہسے تان ھے مراسکھُنو ژونو بہچیکو کھوشش کوراو اوشتم۔ ای پھتی روئے ہتو لوو کار کوری تان ہیہ پرانو مراسکھُنو کوراو اوشونی۔ ہار سال چلہہ چھکو ݰویہ آوا سال غیریکو ذکرو کوراو گتی اسُم۔ ہموغار اچی وا کا ہو  کونیا نوا کیہ خبار؟ سال غیریکو بارا پروشٹی دی نویشی استم کہ ہیہ اسپہ بو قدیم تہوار شیر۔ ہمو زندہ بہچیلک۔ مگم بدقسمتی ہیہ ہوئے کی اسماعیلی کونسلو چے طریقہ بورڈو لوٹھورانن غیچہ ہیس "گناہ" سریتائے حالانکہ امام بار بار تان ثقافتو زندہ بہچاور رے فرمان کوری گیتی اسور۔ امامو فرمانن ہوݰ نو کورک مذہبو لوٹھورو بکو نتیجہ ہیہ ہوئے کی اسپہ تان پرانو مراسکھُنن روخڅیتم۔ لوٹکوہو روئے ہموتے پھاتک رینی وا باقاعدہ ہیہ مراسکھُنو کونین۔ لوٹکوہہ لوٹ چلہ چھکو( فروریو شروغی

زندگیوں سفار۔۔۔25

زندگیو سفار۔۔ ۲۵ ݯھترارہ جو سال سبق ریکو موژی ݯھترار کیچہ اوشوئے؟ چیو سیرہ پھار نیسی کڑوپ رشتو ای کما دکان توری ویلٹی۔ ہتیغار پھار موڑی ویلٹی چنار تیلیو چے غوڈومو کان بی خدا رخمتو دکانتو توری اوشونی۔ ہیس درزیو دکان اوشوئے۔ مہ خیالہ کوٹ سواک اوشوئے۔ ہسے خدا رحمت تان اوشویا نو تو ژاو متے صحی یاد نو بوین۔ خدا رحمت مشور باشونو نیزاک وا میتارو قہرینیو موڑی گیتی بلچہ و چے مستوچہ بندی بتی اسور۔ کھاڑ ژغانتے کیہ رے اسور۔   دودور گازوغئے اللہ تان قدرتہ مو کورار تہ اسپتے نصیب *  جنت ݯھترارو وخشی جوانانن مستوچہ کیہ اسیک  بلچ دودوران ماڑ یہ دودوران ماڑہ قوش کوری اسم ݯھترار حورانن ژاغہ متے نو بوین رے ہوݰ کوری اسُم۔ دیوان بیگیو دورو مڑو رہہ توری اسمعلیہ ہاسٹل شاور۔ ہتے سو جستہ مسافر خانہ وا اولاغنتے آخرانو دی اوشوئے۔ ہیہ ہاسٹلو چے مسافر خانہ دودیریو اسمعلیہ اسکولیان و چے مسافرانن بچے خدایو بو لوٹ نعمت اوشونی۔ ۱۹۸۲ مذہبی انتہا پسندیو ہوستہ پولی پھیرو بتی بغئے۔ ای کندوری بے گنہہ روئے ہیرا بریونو دی ہونی۔ بو امبوہ قران پولونو ہونی۔ ہسے اسپہ پر امن ݯھترارہ اویلو شُم واقعہ اوشوئے۔  اسمعلیہ ہاسٹلار گا

چترالی شوقہ

ہمارے غیر چترالی دوست اور بعض نوجوان چترالی شوقہ اور چوغہ میں فرق نہیں کرتے۔ شوقہ وہ قدیم چترالی سرپوش ہے جو اون کی سادہ پٹی سے بنتا ہے اور ساخت کے لحاظ سے ڈھیلا ڈھالا اور لمبے لمبے بازؤں والا پوشاک ہوتا ہے جبکہ چوغہ کم و بیش انگریزی اور کوٹ کے سائز کا ہوتا ہے جس کے گریباں اور کھلا  حصے کے دونوں طرف  اور بازوں کی کلائیوں پر زردوزی کا کام ہوا ہوتا ہے۔ اہل چترال عام طور پر یہ پوشاک اپنے معزز مہمانوں کو پہناتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق چوغہ بعد میں چترال کے اندر متعارف ہوا ہے جب کہ شوقہ پرانا روایتی لباس ہے۔ جب کبھی تور کھو چترال بالا کا کوئی عزیز دوست، رشتے دار ملتا ہے تو سب سے پہلے مجھے تورکھو کا شوقہ یاد آتا ہے جو پورے چترال میں مشہور تھا اور ہے۔ بدقسمتی سے آج ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتا۔ سال گزشتہ کے خزان کے اوائل سے میں تورکھو کا شوقہ ڈھونڈتا رہا پر نہیں ملا۔  ویسے میرے پاس آج بھی دو عدد شوقہ موجود ہیں۔ ایک میری بڑی سالی مرحومہ کا تحفہ جو ریچ نوغور کے مرحوم وزیر عرب لال کی اہلیہ تھیں۔ دوسرا ان کے فرزند ارجمند ماسٹر سیف اللہ جان نے اپنی والدہ ماجدہ کی روایت زندہ رکھتے ہوئے بھیجا تھا۔ اس کے

بھنگ کی کاشت پر سوالات"

میرے مضمون " بھنگ کی کاشت کی قانونی حیثیت" پر چند دوستوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ اس بلاگ کو دوبارہ پڑھیں۔ میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ہمیں پدر مادر آزادی دی جائے یا یہ کہ ہم اپنی مرضی سے کاشت کریں، روایتی طریقے کے مطابق پروسس کریں اور اپنی مرضی سے پیداوار کو بیچیں۔ میں نے سرکاری کنٹرول میں اس کی کاشت کی تجویز دی ہے۔ اگر سرکار کی منظوری سے یعنی لائسنس حاصل کرکے  کوئی آدمی اس کی کاشت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔  چند بھائیوں کا خیال ہے کہ ہماری نسل اسے آزادانہ استعمال کرے گی اور تباہ برباد ہو جائے گی۔ان کا خیال ہے کہ یہ تہتر سالہ ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر/ پرنسپل کو اس قوم کے بچوں کا بالکل بھی احساس نہیں ہے حالانکہ اس نے اپنی زندگی کا دو تہائی حصہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزارا ہے۔ چند دوستوں نے اسمعیلی اماموں کے فرامین کا حوالہ دے کر بھنگ کو حرام قرار دیا ہے۔ شاید ان کو ایسا لگتا ہو کہ مضمون نگار امام سلطان محمد شاہ اور شاہ کریم کے فرامین سے ناواقف ہے۔ دوستو! مجھے اتنا انپڑھ اور

شوق برف بینی اور سانحہ مری

مری میں سیاحوں کی دلخراش اموات سے ایک طرف ہم سب کے دل دکھی ہیں تو دوسری طرف مری کے ہوٹل والوں کا سیاحوں کے ساتھ بے درد سلوک کا سن کر ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اس وقت ہم حالت ماتم میں بھی ہیں اور شرمندگی میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک مرحومین کو جنت میں داخل کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے! سرکاری اداروں کی غفلت اور مری کے کاروباری لوگوں کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے اس کی تفصیل میں جانا باعث اکتاہٹ ہوگا۔ عینی شاہدین پر بھی سو فیصد اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ مبالغہ کا دور ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ سرکار کی مجرمانہ غفلت کا بیان ہو یا ہوٹل والوں کی بے حسی اور کھلا لوٹ مار ہر ایک میں مبالغہ شامل ہے۔ اس سانحے کو لے کر سیاست کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ہےکہ دو ہزار روپے کا ناشتہ اور ایک ہزار کا ایک انڈا فروخت ہوا۔ پچاس ہزار کا کمرہ ایک رات کے لیے دیا گیا۔ اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں آتا کہ کیا ایک انسان اتنا بھی گر سکتا ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لے۔ اگر یہ درست ہے تو ان ہوٹل اور ریستوران مالکان کے خلاف سرکار کو سخت ترین اقدام اٹھانا چاہیے جو اہل