چترالی شوقہ

ہمارے غیر چترالی دوست اور بعض نوجوان چترالی شوقہ اور چوغہ میں فرق نہیں کرتے۔ شوقہ وہ قدیم چترالی سرپوش ہے جو اون کی سادہ پٹی سے بنتا ہے اور ساخت کے لحاظ سے ڈھیلا ڈھالا اور لمبے لمبے بازؤں والا پوشاک ہوتا ہے جبکہ چوغہ کم و بیش انگریزی اور کوٹ کے سائز کا ہوتا ہے جس کے گریباں اور کھلا حصے کے دونوں طرف  اور بازوں کی کلائیوں پر زردوزی کا کام ہوا ہوتا ہے۔ اہل چترال عام طور پر یہ پوشاک اپنے معزز مہمانوں کو پہناتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق چوغہ بعد میں چترال کے اندر متعارف ہوا ہے جب کہ شوقہ پرانا روایتی لباس ہے۔

جب کبھی تور کھو چترال بالا کا کوئی عزیز دوست، رشتے دار ملتا ہے تو سب سے پہلے مجھے تورکھو کا شوقہ یاد آتا ہے جو پورے چترال میں مشہور تھا اور ہے۔ بدقسمتی سے آج ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتا۔ سال گزشتہ کے خزان کے اوائل سے میں تورکھو کا شوقہ ڈھونڈتا رہا پر نہیں ملا۔  ویسے میرے پاس آج بھی دو عدد شوقہ موجود ہیں۔ ایک میری بڑی سالی مرحومہ کا تحفہ جو ریچ نوغور کے مرحوم وزیر عرب لال کی اہلیہ تھیں۔ دوسرا ان کے فرزند ارجمند ماسٹر سیف اللہ جان نے اپنی والدہ ماجدہ کی روایت زندہ رکھتے ہوئے بھیجا تھا۔ اس کے باوجود تیسرے شوقہ کی خواہش تھی۔ میری والدہ ماجدہ (اللہ ان کی مغفرت فرمائے) بھی شوقہ بنانے کے ہنر میں پوری مہارت رکھتی  تھیں۔ ان کی زندگی میں ہر دوسرے سال ایک نیا شوقہ ملتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد بڑی بہن بیگم سلطان مراد خان لال پتراگاز یارخون یہ روایتی دست کاری جاری رکھی تا آنکہ ان کی طاقت بھی جواب دے گئی۔ اس وقت پوری وادی میں مجھے نہیں لگتا کہ کوئی خاتون پٹی سازی کا کام کرتی ہو۔ اپنی روایتی دستکاری کی یوں طاق نسیاں ہونا مجھے ہمیشہ دکھ دیتا رہا ہے۔ ہم نے اے کے آر ایس پی کے تعاؤن سے اون سے بننے والی روایتی دستکاری  کے فروغ کی بڑی کوششیں کیں۔ وا حسرتا! ہماری ساری محنت خاک میں مل گئی۔ اس وقت وادی یارخون کی شاید چند بہو بیٹیاں اونی بنیان بنتی ہوں گی۔ پٹی بنانے کا رواج دم توڑ چکا ہے۔ 
ایک دن میرے بہت ہی عزیز برخوردار نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ کے ساتھ فون پر کافی لمبی چوڑی گپ شپ ہوئی۔ موسم سے لے کر ثقافت تک ہر شعبہ مختصراً زیر بحث آیا۔ میں نے آج کل کی موسمی تغیرات کا ذکر کیا اور کہا کہ آج سے پانج چھہ دھائیاں پہلے موسم کے متعلق مقامی لوگ بالکل درست پیش گوئیاں کیا کرتے تھے۔ خزان میں پہاڑوں پر برف کی تہ بچھتی دیکھتے تو کہتے کہ سردیاں خشک ہوں گی۔ جب موسم خزان میں برف باری نہ ہوتی تو دسمبر جنوری میں برف باری یقینی ہوتی۔ گزشتہ دو دھائیوں سے موسم حسب سابق روایتی نشانات کے مطابق نہیں بدلتا۔ نیازی کہنے لگے، " میکی! ہماری ہر چیز بدل گئی ہے۔ ہماری ثقافت، ہمارے رویے اور ہماری روایات سب کچھ اولٹ گئے ہیں۔ آج ہم  تورکھو والے بازاری کباڑ پہنتے ہیں ( حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ میں نے تورکھو کے وقاص ایڈوکیٹ کو خوبصورت شوقہ پہنے دیکھا ہے) جب کہ چترال خاص کے لوگ شوقہ  زیب تن کیے نظر آتے ہیں۔ میرے بچپن میں گاؤں رائیں کے ہر گھر میں چترالی پٹی تیار ہوا کرتی تھی آج ہماری خواتین چرخہ، تکلہ تک کا نام بھول گئی ہیں۔ ہماری قدیم روایتی خوراک ٹاربٹ، ژوڵہ ݰوشپ اور سادہ ݰوشپ میں لوگ فرق نہیں کرتے۔ سب کو ݰوشپ کہتے ہیں اور ژوڵہ ݰوشپ کو بھی ٹاربٹ بولتے ہیں۔ ہماری خواتین اس طعام کو نہیں تیار کر سکتیں کیونکہ وہ مکرونی اور نوڈلز بنانے کی مہارت رکھتی ہیں کیونکہ یہ آسان کام ہے"۔
اپنے جوان وکیل برخوردار کی اپنی ثقافت سے دلچسپی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہماری گفتگو 35 منٹ جاری رہی جس میں اپنی بہت ہی قیمتی گھریلو صنعت کی یوں ملک بدری پر افسوس کرنے کے ساتھ ان وجوہات کا ذکر بھی ہوا جو ہماری بیٹیوں کو اپنا ثقافتی ورثہ سے دور کر دیا۔ نیازی نے بچیوں کی تعلیم میں اپنی ثقافت سے متعلق تعلیم و تربیت کے فقدان اور موبائل فون اور نٹ کو اس کے ذمے دار ٹھہرایا جو بالکل درست تجزیہ ہے۔ اس نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ ان دنوں زیرین تور کھو میں کسی بھی گھر میں اونی مصنوعات کی تیاری کا وجود نہیں ہے۔ میرا خیال تھا کہ تور کھو میں پٹی سازی خاص کرکے شوقہ بنانے کا رواج بدستور قائم ہے۔ مجھے بہت قلق ہوا۔ ہماری بہت ہی مقبول اور فائدہ مند دستکاری کا علاقے سے اس طرح رخصت ہو جانا ایک ثقافتی المیہ ہے اور لمحہ فکریہ بھی!!

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی