Posts

Showing posts from June, 2022

جمہوریت یا بادشاہت؟

میری عمر 73 سال کی ہے۔ گویا پاکستان ڈیڑھ دو سال مجھ سے بڑا ہے۔ پاکستان کی پیدائش، بچپن اور لڑکپن جس خلفشار سے گزرے میری زندگی میں ایسے واقعات پیش نہیں ائے، الحمدللہ! والدین کی پر شفقت نگہداشت حاصل رہی۔ میں دنیا سے بے خبر تھا۔ 9 سال کی عمر کو پہنچتے میں نے مارشل لاء کا نام سنا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پہلا مارشل لا تھا اور اس کا سبب ہماری سیاسی قیادت تھی کیونکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی قیادت کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ یہاں تک غلام محمد جیسے شخص کو گورنر جنرل بنا دیا گیا جو جسمانی لحاظ سے معذور تھا۔ ایک غیر ملکی خاتون کے ہاتھوں پاکستان چل رہا تھا ۔ ایک بیوروکریٹ کو صدر بننے کا موقع دیا گیا۔ ملک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا ۔ 1967 میں ذولفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی بنائی اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف میدان میں کود پڑا۔ عوام کو اکسایا۔ خاص طور پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو متحرک کیا۔ گھیراؤ جلاؤ اور فسادات شروع ہوئے۔ ایوب خان ملک جنرل یحیٰی خان کے سپرد کرکے سبکدوش ہوگئے۔ جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر ڈیڑھ دو سال حکومت کی اور تاریخ میں پہلی دفعہ شفاف انتخابات کرائے

پھندک (phindik)

پھندک کھو ثقافت کے علمبرداروں میں راقم کا نام بھی شامل رہا ہے۔ گزشتہ ایک لمبے عرصے سے میں بالائی چترال کے دو مشہور تہواروں کے بارے میں لکھتا رہا ہوں اور ان کی احیاء کی ترغیب دلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن اہل چترال نے ان تحریروں پر پسند کی حاضری لگانے  کے سوا عملی حرکت نہیں کی۔ جب تک میری انگلیوں میں لکھنے کی سکت باقی رہے گی اپنے ثقافت کے علمبرداروں کو یاد دلاتا رہوں گا کہ خدا را اپنے تہواروں کو پھر سے زندہ کریں۔ ہر سال جون کے مہینے وادی مستوج کے باسی پھندک منایا کرتے تھے۔ تورکھو میں غاریوغ کے نام سے یہ تہوار منایا جاتا تھا۔  1990 تک مستوج سے لے کر سو یارخون تک پھندک کا تہوار باقاعدگی سے منایا جاتا رہا تھا۔ 1983 تک راقم الحروف بذات خود اس تہوار کے منانے والوں میں شریک رہا ہے کیونکہ پولو کھیلنا میرا بھی پسندیدہ مشغلہ تھا اور پولو کا کھیل پھندک کے کھیل تماشوں میں سر فہرست تھا۔ آخری دفعہ 2013 یا 2014 میں اے کے آر ایس پی اور مقامی امدادی تنظیم پونار کے اشتراک سے یارخون میں یہ تہوار منایا گیا تھا۔میراگرام نمبر دو کے پولو گراؤنڈ میں تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں سب ڈویژن مستوج کے اس وقت کے اے

بونی ہسپتال

Image
پہلے یہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال تھا۔ اپر چترال ضلع بننے کے بعد اسے ضلعی مرکزی ہسپتال کی حیثیت حاصل ہونا تھی لیکن ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت میں اسے کوئی نام نہیں دے سکتا۔ اس لیے بونی ہسپتال لکھ ڈالا۔ امید ہے کہ سال روان کے آخر تک اس ہسپتال کے اندر تعمیرات مکمل ہو جائیں گی۔ ممکن ہے اگلے سال تک آسامیاں منظور ہو جائیں گی اور صحت کا یہ مرکزی ادارہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی حیثیت پاکر خدمات شروع کرے گا۔ ڈیڑھ دو سال پہلے اس کی مخدوش حالت پر لکھا تھا۔ اس وقت اس کی عمارت کھنڈرات کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ چار دیواری مکمل طور پر گر چکی تھی۔ رات کو آوارہ کتوں کا یہاں راج ہوا کرتا تھا۔ ہسپتال کی توسیعی منصوبے کے تحت بننے والی عمارت کے لیے کھدائی کرکے سارا ملبہ زیر استعمال وارڈوں اور رہائشی مکانات کی دیواروں کے ساتھ جمع کیا گیا تھا۔  آج جب ہسپتال کی عمارت کے اندر داخل ہوا تو نقشے کو بدلا ہوا پایا۔ چار دیواری بن چکی ہے۔ گیٹ لگا ہے۔ ایمرجنسی اور زچہ بچہ مرکز کے سامنے کچی زمین پختہ ہو چکی ہے۔ کار پارکنگ بن رہی ہے۔موجودہ عمارت کی خصوصی مرمت جاری ہے۔ زیر تعمیر توسیعی عمارت تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ ا

خانہ بدوش تھانہء مستوج

عام طور پر پولیس تھانہ جائے مجرماں کہلاتا ہے۔ تھانہ جانے والا یا مجرم ہوگا یا جرم کے خلاف درخواستی۔ اس لیے مجھ جیسے سفید مو اور سفید پوش لوگ تھانے کا رخ کرکے بڑی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے پیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ اس بندے کو کیا مصیبت پیش آئی ہے جو تھانے جا رہا ہے۔ اس طرح پولیس کا باوردی جوان کسی کے گھر جائے تو اس کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ اس تمام کےباوجود تھانہ جانے کی ضرورت پیش آتی ہی ہے۔ ایک دن اتفاق سے مجھے بھی مستوج تھانہ جانا ہوا۔ ریاست کے زمانے سے مستوج تھانہ جس عمارت میں قائم تھا وہ مستوج کی وسطی جگہ تھی۔ اس زمانے کی تعمیر کے لحاظ سے کافی شاندار عمارت تھی۔ سامنے باغ بھی تھا اور پارکنگ بھی۔ پھر کیا ہوا کہ یہ عمارت کھنڈرات میں بدل گئی۔ تھانہ قریب واقع تحصیل انتظامیہ کی رہائشی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ یہ غالباً 2003 کا واقعہ ہے۔ کل جب اس مقام کا رخ کیا جہاں ایک دھائی پہلے عارضی عمارت میں تھانہ چل رہا تھا تو اسے خالی پایا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کوئی ایک کلومیٹر دور پرانی یارخون سڑک کے کنارے توق گاؤں میں کسی کرایے کے مکان

باد تند کی تخریب

موسم بہار جب رنگ برنگے پھولوں کے جامہ عروسی زیب تن کیا تھا تو دل بہت خوش تھا کہ سال روان کا شگون اچھا ہوا۔ خوبانی، چیری، اڑو اور سیب کے درخت پھولوں سے لد گئے تھے۔  ہم نے بیتابی کے ساتھ توت پکنے کا انتظار کیا جو عموماً وسط جون میں پکتا ہے،خاص کرکے سفید توت جو بے دانہ کہلاتا ہے میرے پسندیدہ پھلوں میں سے ہے۔ نیلا توت یعنی گھلتی کان جون کے پہلے ہفتے وادی یارخون میں پکتا ہے اور موسم گرما کا پہلا تازہ پھل کے طور پر دسترخوان کی زینت بنتا ہے۔ امسال اپریل کا مہینہ بہت گرم رہا جب کہ مئی نسبتاً سرد رہا پھر بھی توت معمول کی تاریخوں سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے پکنے لگے تھے اور ہم نے درختوں سے اتارنے لگے تھے کہ موسم کا مزاج یکسر بدل گیا بلکہ بگڑ گیا۔ تند تیز باد شمالی، جنوبی ، شرقی اور عربی نے روزانہ تین چار بجے کے قریب اپنا بھیانک چہرہ دکھانا شروع کیا۔ نازک توت کا کیا پوچھیں خوبانی اور سیب کے کچے پھل بھی درختوں سے توڑ گرانے لگی۔ یوں توت کھانے کا وہ اشتیاق آپ ہی آپ مر گیا۔ سوچتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم ناشکرے لوگوں کو اللہ کی نعمتوں کی بے قدری کی سزا مل رہی ہے۔ ہم اپنے باغ کا توت اتارنے کے بجائ

پچھلی حکومت ؟؟؟؟؟

یہ مہنگائی؟ پچھلی حکومت کی نااہلی۔ یہ بے روزگاری؟ پچھلی حکومت کی نالائقی۔ خزانہ کیوں خالی ہے؟ پچھلی حکومت نے خالی کیا۔ خارجہ پالیسی کی ناکامی؟ پچھلی حکومت کی غلط پالیسی۔ الغرض جتنی بھی برائیاں اور خرابیاں سامنے  آئیں گی انہیں پچھلی حکومت پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی یہ سیاسی ریت بہت پرانی ہے۔ یہ جھوٹے  بہانے سن سن کر ہمارے کان پک گئے اور اب ہم کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہیں کہ بے شرمی اور بے حیائی کے یہ جملے کانوں میں نہ گھسیں۔۔ انتہائی تعجب اس بات کا ہے کہ ہم ان گھسی پٹی تقریروں پر اس طرح یقین کرتے ہیں گویا یہ الہام الہیٰ ہوں۔ جس سیاسی جماعت کے ساتھ ہماری وابستگی ہوتی ہے وہ پارٹی اور اس کے قائدین ہر قسم کے گناہ سے پاک صاف اور دودھ سے دھلے ہوتے ہیں۔ ان کی ہر بات سو فیصد سچی اور کردار ولیوں جیسا ۔اپنی آنکھوں کے سامنے ان کے بدترین افعال دیکھ کر بھی ہم یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر کوئی نشان دہی کرلے تو اس کے گلے میں چھرا گھونپنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ہم جیسے " غیر سیاسی، کم فہم" لوگ سوچ سوچ کر دل پھٹا جا رہا ہے کہ اس قوم کو کب عقل آئے گی؟ یہ کب اپنے نفع نقصان میں تمی

غم دل کس سے کہوں؟

غم دل کس سے کہوں؟ غم دل ہلکا کرنے کا کوئی ذریعہ ، کوئی وسیلہ باقی نہیں رہا۔ مہینے کے تیس دن، روز آٹھ دس گھنٹے اور سال کے بارہ مہینے کولہو کے بیل کی طرح کام میں جتا رہتا ہوں۔ گھر کے تین افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کما نہیں پاتا۔ دن رات بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ رات کو خواب میں بھی دال روٹی کی فکر پریشان کیےرکھتی ہے" ایک ہزار روپے کے دو کلو گھی شاپنگ بیگ میں اٹھائے جمرہ بیگ کھڑے کھڑے اپنی دکھ بھری کہانی ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی۔ اس کی رونی اور تھکی صورت اور زبان سے حقیقت کا شکوہ کرتے دیکھ سن کر مجھے بھی جمرہ بیگ اور اس جیسے کروڑوں جمرہ بیگوں کی فکر معاش کی فکر ستانے لگی۔ سوائے دل میں دکھ درد پالنے کے کر بھی کیا سکتا ہوں۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعاء مانگنے کے سوا مجھے کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آ رہا۔ اے رب کریم! غم دل کس سے کہوں تیرے سوا؟  "اے رب کائنات! تو ہی ہمارے بدقسمت ملک کے غریبوں کا سہارا ہے۔ تیری رحمتوں کی طفیل یہ ملک زندہ ہے۔ جمہوریت کے نام پر آپ کے بے بس بندوں پر غربت مسلط کرنے والے بھی تیری ہی بندگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کوئی ایک کام بھی تیرے دین