خانہ بدوش تھانہء مستوج

عام طور پر پولیس تھانہ جائے مجرماں کہلاتا ہے۔ تھانہ جانے والا یا مجرم ہوگا یا جرم کے خلاف درخواستی۔ اس لیے مجھ جیسے سفید مو اور سفید پوش لوگ تھانے کا رخ کرکے بڑی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے پیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ اس بندے کو کیا مصیبت پیش آئی ہے جو تھانے جا رہا ہے۔ اس طرح پولیس کا باوردی جوان کسی کے گھر جائے تو اس کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ اس تمام کےباوجود تھانہ جانے کی ضرورت پیش آتی ہی ہے۔
ایک دن اتفاق سے مجھے بھی مستوج تھانہ جانا ہوا۔ ریاست کے زمانے سے مستوج تھانہ جس عمارت میں قائم تھا وہ مستوج کی وسطی جگہ تھی۔ اس زمانے کی تعمیر کے لحاظ سے کافی شاندار عمارت تھی۔ سامنے باغ بھی تھا اور پارکنگ بھی۔ پھر کیا ہوا کہ یہ عمارت کھنڈرات میں بدل گئی۔ تھانہ قریب واقع تحصیل انتظامیہ کی رہائشی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ یہ غالباً 2003 کا واقعہ ہے۔ کل جب اس مقام کا رخ کیا جہاں ایک دھائی پہلے عارضی عمارت میں تھانہ چل رہا تھا تو اسے خالی پایا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کوئی ایک کلومیٹر دور پرانی یارخون سڑک کے کنارے توق گاؤں میں کسی کرایے کے مکان میں منتقل ہوا ہے کیونکہ تحصیل انتظامیہ کو اپنی عمارت کی ضرورت پڑی تھی اس لیے پولیس سے واپس لی گئی۔گاؤں کے اندر راہگیروں سے پوچھ پوچھ کر تھانہ پہنچ ہی گیا۔ ایک پرانی کچی بوسیدہ عمارت جو کبھی پرائیویٹ پرائمری اسکول کی عمارت ہوا کرتی تھی اس وقت تھانہ تھی۔ تھانہ دار کو برآمدے میں دفتر لگائے پایا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ عمارت ناکافی ہے۔  ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو مجھے خانہ بدوش قبیلوں کی رہائش گاہ ہی لگی۔ مجھے بےحد افسوس ہوا کہ 19 سال گزرنے کے بعد بھی ایک مرکزی تھانے کی عمارت نہیں بن سکی۔ ایس ایچ او صاحب سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پایا۔
مشاہدے سے معلوم ہوا کہ یہ عمارت نہ دفاتر کے لیے مناسب ہے اور نہ جوانوں کی رہائش کے لیے کافی ہے۔ ایسے حالات میں پولیس سے بہتر کارکردگی کی امید رکھنا کم عقلی بھی ہے اور انتہائی ناانصافی بھی۔
سوچا کہ جس محکمے کو طاقتور خیال کیا جاتا ہے اس کے پاس اپنا تھانہ تعمیر کرنے کو فنڈ ندارد۔ کیا محکمہ پولیس سرکار سے اپنی بنیادی ضرورت کے لیے فنڈ حاصل نہیں کر سکتا ہے؟ 
میں بحیثیت ایک سوشل ورکر وزیر اعلے صاحب خیبر پختون خواہ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس سے گزارش کرتا ہوں کہ مستوج تھانے کی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فنڈ مختص کیا جائے۔  یہ سب سے پرانا اور تاریخی پولیس اسٹیشن ہے۔ اسے ایک بوسیدہ عمارت میں کس مہ پرسی کی حالات میں چلانا نہ صرف محکمہ پولیس کے لیے باعث شرمندگی ہے بلکہ علاقے کے لیے بھی باعث ندامت ہے۔
شیرولی خان اسیر
( ریٹائرڈ پرنسپل، سکینڈری ایجوکیشن کے پی کے)
سوشل ورکر، یارخون اپر چترال
فون: 93483688525



Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی