Posts

Showing posts from February, 2022

پاک روس قربت

کم و بیش چوہتر سال بعد پاکستانی قیادت کو ہوش آ ہی گیا کہ ہمارے حق میں اپنے پڑوسی طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا ہی بہتر ہے۔ گرچہ حسب مخالف چھوٹے بڑے مختلف تاویلات کے ساتھ وزیراعظم عمران خان صاحب کے دورہ روس کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت کو جھٹلانا دیر پا نہیں رہتا۔ عمران خان صاحب کی حکومت کی خارجہ پالیسی پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ہمارے ذہنوں کو روس کے خلاف زہریلی خوراک دی جاتی رہی تھی۔ یہاں تک میرے کانوں نے سنے اور میری آنکھوں نے پڑھیں کہ روس  خدا اور اس کو ماننے والی مخلوق کا دشمن نمبر ون ہے۔ روس کے اندر مذہب اور اخلاقیات کا نام و نشان نہیں ہے۔وہاں ماں، بہن، بیوی میں تمیز نہیں۔ وہاں بچے اپنے ماں باپ کو نہیں جانتے اور والدین اپنے بچوں کو۔ وہاں خاندانی نظام کا تصور ہی نہیں۔ وہاں چھوٹے بڑے ، مرد و زن ہر کسی کو محض دو وقت کی روٹی کے لیے سرکار کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔ الغرض ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ روس کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ کمیونزم کو ایک اژدھا بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور ہمارے ذہنوں کو مکدر کیا جاتا

اپنی اپنی رائے

جب بھی وبائی مرض پھیلتا ہے تو وہ ہر کسی کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ کسی کو مار دیتا ہے تو کسی کو نیم مردہ کر دیتا ہے جب کہ بعض اس سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے دنیا پر حملہ آور کورونا وائرس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ملک کی سیاست بھی ایک وبائی بیماری جیسی ہے۔  یہ بعض لوگوں کو مار دیتا ہے۔ بعض کو نیم مردہ بناکر چھوڑتی ہے۔ ہم جیسے لوگ جو سیاست کا نام سن کر کانوں میں انگلیاں ڈال کر آواز روکنے کی کوششیں کرتے ہیں اس کی ہلکی سی آواز کو اپنے دماغ تک پہنچنے سے نہیں روک پاتے۔ چترال میں ان دنوں بلدیاتی انتخابات کا سیاسی بخار ایک سو دو درجے تک پہنچ گیا ہے جس کی تپش محسوس ہو رہی ہے۔ اس مرتبہ بہت سی پارٹیوں نے ویلج کونسل سطح تک اپنے نمائندے سامنے لا چکی ہیں اس لیے گھر گھر اپنی اپنی پارٹیوں کے امیدواروں کی کامیابیوں کی پیش گوئیاں یا امیدیں گرم گرم ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ اپنی غیر سیاسی عقل و دانش کا اظہار کروں۔ آخر یہ لوگ نمائیندگی تو ہماری ہی کریں گے۔ فائدے اور نقصان  تھوڑی بہت میرے حصے میں بھی آئیں گے۔ ہم از کم اپنی تحصیل کے "سیاسی خدمت " کے لیے سامنے آنے

ماں

والدہ ماجدہ کی تیسویں برسی  چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے میں نے جنت  تو نہیں دیکھی ہےماں دیکھی ہے (منور رانا) آج سے 30 سال پہلے میں نے اس دنیا میں اپنی جنت کھو دی تھی۔ ماں کی زندگی بچوں کے لیے اس پر آشوب دنیا میں بہشت کی زندہ مثال ہے۔ جب تک ماں زندہ رہتی ہے تب تک بچوں کا زیادہ وقت ماں کی قربت میں گزرتا ہے اور جو اولاد کے لیے جنت جیسی ہوتی ہے اگرچہ بہتوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ غیر محسوس انداز میں بھی ماں کی حیات بچوں کے لیے بہشت ہی رہتی ہے۔  شادی شدہ ہونے کے بعد بچوں کا ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا عرصہ گھٹ جاتا ہے۔ ساس بہو میں اختلاف کی خاص وجہ بھی یہی ہے۔ ماں اپنے بچوں کی محبت کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتی۔ سمجھدار مائیں محبت کی تقسیم پر سمجھوتہ کر لیتی ہیں لیکن زیادہ جذباتی مائیں بیٹوں کی زندگی میں بہو کی شرکت برداشت نہیں کر پاتیں جو ساس بہو میں اختلاف کے ساتھ ساتھ ماں اور بیٹے میں بھی دوریاں پیدا کرتی ہے۔ میری والدہ ماجدہ ایسی نہ تھیں۔ وہ بڑی زیرک خاتون تھیں۔ بچوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا کرتیں۔ ہم بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے کے باوجود بہوؤں کے ساتھ اس بنیاد پر کوئی ر

یوم چترال

یکم فروری 2022 کو بہار احمد صاحب کا فون آیا۔ بہار احمد کی شخصیت اور کردار محتاج تعارف نہیں۔ چترال برینس کے بہار احمد کے ساتھ تعلق اس وقت سے ہے جس وقت بہار احمد محکمہ تعلیم میں استاد تھے۔ ایک متحرک، پرتجسس اور تعمیری ذہن کے مالک بہار احمد کو شاید تدریسی شعبہ ان کی سرگرمیوں کے لیے تنگ دامن لگا کہ اس نے اسے خیرآباد کہہ کر اپنا فلاحی ادارہ کھولا۔ یہ ادارہ چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ کے نام سے رجسٹر ہوا اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہترین خدمات کا آغاز کیا۔ اب تک ہزاروں طالب العلموں کو وظائف مہیا کرکے اعلے تعلیم تک رسائی دی ہے اور لاتعداد مریضوں کی مالی مدد کی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہترین خدمات انجام دینے والے شخصیات اور ادروں  کو ایوارڈز دینے کی طرح بھی ڈالی ہے جو ڈاکٹر اے کے خان ایوارڈ کے نام سے محسن پاکستان، پاکستان کے ایٹمی انرجی کے خالق مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات پاکستانی قوم کو یاد دلاتے رہیں گے۔ بہار احمد صاحب نے فون پر بتایا کہ چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ نے پشاور میں چترال ڈے منانے کا اہتمام کیا ہے جس میں بچوں اور نوجوانوں میں حسن قراء

زندگیو ‏سفار ‏8

اسیرو زندگی۔۔۔۔۔8 ہتے چھوئے مہ سار روخڅونو نو بوئےکوریکو کہ ہسے  ہتے عمرہ پت مہ سم بیرو اویلو بے عزتی اوشوئے۔ ہتے وختہ پت مہ کیہ عیب مہ نن تتن نسہ کی کھوشت بہچی گیتی اشوئے ھ چھویو سورا نسائے۔ کیہ وتکہ غیرت بیگ استاذ متے تان کتابو انگیے ریتئے تھ دنیا متے غیردی ہائے۔ تان کلیرو گانی اہئ ریپھیتم۔مینوان قوشخانار دورتو روکھوݰی باتم۔ بستہ ار کتابو یئ نیزی ہوستہ کوری اچی قوشخانو وولٹی کیہ بغاتم گویاکہ پھانسیو  شیمینئیو تان بوکی دریکو باتم دیا۔ کتابو غیرت بیگ استاذو تے پھریتم۔ ہسے ورق دیتی ای ژاغا چاموٹ پاشے 'ہیا راوے مه ژاو' ریتئے۔  اوا سورو موڑو دیتی چُمچوقُٹ بتی حال ہوتم۔ ای خور سبقو  نیزی ہمو راوے ریتئے مگم مہ لگینی موݰے نو غیرتئے۔ وا ای خور ورقو نیزی ہمو راوے ریتئے مگم مہ غیچ ہتئ نو ݯوکیتئے۔ ہرونیا غیرت بیگ استاذ مہ تتو ووݰکی غیری ہموݰ ریتئے" ہائے لال! تہ ہیہ ژاو بو نالائق برائے" ۔ مہ تت پھوک کوری مہ وولٹی لوڑتئے ۔ ہتو موخہ بو نا امیدی مہ غیچی ہائے۔ اوا یکدم سورو موڵو پھریتم۔مہ تت کیہ لو نو پرائے۔ غیرت بیگ استاذو ہے جملہ مہ ہردیو موژین نیسی بغئے۔  مت ہاݰ سریتئے کہ مہ ہر

زندگیو ‏سفار ‏4

ا سیرو زندگی   4  ھ سالو گرِݰپٷ دی چارغیریا شخڅے شورو بِکو مہ نن تت اسپہ گانی اچی پرکوسپوتے رہی ہونی۔ اسپہ دورا ای وخیک واو چو تو ژاو لولونمیں اساونی۔ لولو مہ سار کیہ پھُک رو لوٹ اوشویا۔ دورو وا مال حالن ہتے واوو ہوستی کوری، خرچہ خوراک ہتوتے پیڅھی  دورار رہی ہوتم۔  اوا و چو مہ لوٹھورو کئے ہرونی خوشان اسوسی کہ لو  دیتی اہیی تاریکو بݰ نو۔ تان اژیرو بوردیرو دورو، برارگینی اسپسارگینَین، تاتی یانِن وا نن گینیَن ، تان دیہو نن گینی تت گینیَن  وا اشٹوکو یاران بچے بو ھردی پھت بتی استم۔ اسپتے ہاݰ سرئیاو اوشوئے کہ اولی کہ اف تروسی۔ ننو چے تت ہاݰ لو دیتی استانی کہ ای کما بس اوھرکنہ بتی پرکوسپوتے بسی۔    دورار  یو نسی اسپہ جوالی نست نسی یو ھاتم۔ اسپہ اچتو مہ نن اسپہ سفان سار پھُک   اسپسارو بیڅ کوری مہ سورا اژیرو ہوستہ ݯوکی ہتے اچہ مہ تت استورو بتینہ کوری گیتی پیݯ گوڵو خومِکو اسپہ خونځا رے اسپسار ݰا ہواز نے کیڵتئے۔  ہسے څیقی گانی کیڵَک اوشوئے۔ خونځا نمو دی بو کیڵاندرو بِکین مہ تت ہتوتے لکھی استئے۔ ہرونیا مہ تت خبار گانتئے  کہ ہیس کھیوتے کیڵیرَن۔ مہ نن ریکی ہیہ نو بسی ران۔ مہ تت توغو فنا فانی کوری