ماں

والدہ ماجدہ کی تیسویں برسی 
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت  تو نہیں دیکھی ہےماں دیکھی ہے (منور رانا)
آج سے 30 سال پہلے میں نے اس دنیا میں اپنی جنت کھو دی تھی۔ ماں کی زندگی بچوں کے لیے اس پر آشوب دنیا میں بہشت کی زندہ مثال ہے۔ جب تک ماں زندہ رہتی ہے تب تک بچوں کا زیادہ وقت ماں کی قربت میں گزرتا ہے اور جو اولاد کے لیے جنت جیسی ہوتی ہے اگرچہ بہتوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ غیر محسوس انداز میں بھی ماں کی حیات بچوں کے لیے بہشت ہی رہتی ہے۔  شادی شدہ ہونے کے بعد بچوں کا ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا عرصہ گھٹ جاتا ہے۔ ساس بہو میں اختلاف کی خاص وجہ بھی یہی ہے۔ ماں اپنے بچوں کی محبت کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتی۔ سمجھدار مائیں محبت کی تقسیم پر سمجھوتہ کر لیتی ہیں لیکن زیادہ جذباتی مائیں بیٹوں کی زندگی میں بہو کی شرکت برداشت نہیں کر پاتیں جو ساس بہو میں اختلاف کے ساتھ ساتھ ماں اور بیٹے میں بھی دوریاں پیدا کرتی ہے۔
میری والدہ ماجدہ ایسی نہ تھیں۔ وہ بڑی زیرک خاتون تھیں۔ بچوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا کرتیں۔ ہم بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے کے باوجود بہوؤں کے ساتھ اس بنیاد پر کوئی رنجش نہیں رکھا کرتیں کہ وہ ان کے اور بیٹوں میں حائل ہوگئی ہیں۔ گھر گرہستی کی تربیت کے لحاظ سے بہوؤں پر سختی کیا کرتی تھیں جو بعد میں ان کے بہت کم ایا۔ 
ہماری امی کی محبت ایک عملی محبت تھی۔ ہماری تعلیم و تربیت میں ان کا حصہ ہمارے بابا کے مقابلے میں کئی گنا بھاری تھا۔ ہماری ساری ضروریات کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ خود ناخواندہ تھیں لیکن بچوں کو تعلیم دلانے میں پیش پیش رہیں۔ مجھے آج بھی ماں کے الفاظ سنائی دیتے ہیں جب وہ مجھے اور میرے بھائیوں کو سبق یاد کرنے کی تاکید کیا کرتی تھیں۔ میرے والد صاحب کی ایسی کوئی تاکید مجھے یاد نہیں۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں ان کی تربیت کی بدولت ہیں۔ ان کی تربیت پیار و محبت کے ماحول میں ہوا کرتی تھی جب کہ والد محترم کی تربیت دینے کا طریقہ تھوڑا سخت تھا۔

میرے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو ماں کے ساتھ زندگی گزارنے کا اچھا خاصا وقت ملا تھا کیوں کہ ان کی ملازمت مقامی تھی۔ میرے حصے میں جنت کی یہ فضا بہت کم وقت کے لیے آئی کیونکہ میری ملازمت کا سارا عرصہ گھر سے باہر گزرا تھا۔ بچپن اور لڑکپن میں ماں کی قربت کی مٹھاس کا اتنا احساس نہیں تھا کیونکہ ماں کی قربت مسلسل حاصل تھی اور جو چیز مفت اور بے حساب مل جائے اس کی قدر نہیں ہوتی یا یہ کہ اس نادانی کی عمر میں مامتا کی حلاوت سے لطف اٹھانا ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ طالب علمی سے لے کر ملازمت تک کا زمانہ ماں سے دوری میں گزرتا رہا جس نے مجھے بھی تڑپایا اور   میری والدہ محترمہ پر بھی بہت شاق گزرتا رہا۔
 کیا خوب کہا ہے منور رانا نے؛ 
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
گھر سے دور ہونے کے باوجود ماں کی زندگی میرے لیے بہت بڑا خوشگوار احساس تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جب تک ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں دنیا کی کوئی آفت کوئی شر مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اسی یقین پر زندگی بے غم اور خوشگوار گزرتی رہی۔ دل کو یہ جھوٹی تسلی بھی دیتا رہا تھا کہ ماں ہمارا ساتھ کبھی  نہیں چھوڑے گی۔ اس خیال کو اپنے دل و دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیا تھا کہ ماں بھی ایک نہ ایک دن اس فانی دنیا کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور ہم اس عظیم ہستی کے پیار محبت اور دعاؤں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

پھر ایک دن وہ بھی ایا جب میری پیاری ماں کی دنیا سے رخصتی ہوگئی۔ میرے لیے کتنا تاریک دن تھا وہ 12 فروری 1992 کا دن۔ میں بیالیس سال کا بال بچوں والا شخص اکدم سے یتیم  ہوگیا تھا اور ٹوٹ سا گیا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی نے میرے دل کو زندگی سے بیزار سا کردیا تھا۔ لیکن یہ دنیا ایک ایسی مقناطیسی حیثیت رکھتی ہے کہ پھر اس کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوتا گیا اور زندگی اپنی ڈگر پر آ ہی گئی۔
آج تیس سال گزرنے کے باوجود مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ماں کل ہی ہمیں چھوڑ گئی ہیں۔ ان کی جدائی کا غم اسی طرح اندوہناک اور دلسوز ہے گویا مہ وسال کی لمبی مسافت بھی اس پر فراموشی کی گرد نہ بچھا سکی ۔ یہ ماں کی پاکیزہ محبت کا نور ہی تو ہے جو یادوں کو دھندلانے نہیں دیتی۔
پیاری ماں کی ہر برسی پر ہمارے ایک بزرگ پڑوسی اور میرے بڑے بہنوئی سلطان مراد خان لال کا چچا میرغازی خان لال آف پترانگاز یارخون مجھے یاد آتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بڑوں کی محفل میں بیٹھا تھا۔ وہ اپنی ماں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اپنی ماں کا ذکر کرتے ہوئے وہ رو رہے تھے ان کی نیم سفید داڑھی  آنسؤں سے تربتر ہوگئی تھی۔ اس وقت مجھے عجیب سا لگا تھا کہ کم و بیش چالیس سال گزرنے پر بھی وہ ستر سالہ بزرگ اپنی ماں کو یاد کرکے رو رہے تھے۔ ماں کی وفات کے بعد اس بزرگ کے آنسؤں میں مجھے ماں کی جدائی کا درد محسوس ہوا۔ آج میری بھی وہی حالت ہے کیونکہ ماں تا دم مرگ بھولنے والی چیز نہیں ہوتی۔
اللہ رب العزت کے حضور اس پُر تقصیر کی دعاء ہے، اے میرے اور میرے ماں باپ کے رب! میری ماں پر اپنی روحانی نعمتوں کا باراں برساتے رہیں اور ان کی روحانی زندگی کو پرسکون بنائے رکھ، آمین! 
 ربناغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔ آمین یارب العالمین!ہ


Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی