Posts

Showing posts from December, 2022

تین امتحانات

Image
 ویسے دنیا میں سینکڑوں امتحانات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ دنیا سے رخصتی پر ایک اور اخری امتحان دینا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر انسان جنت اور دوزخ میں سے کسی ایک ٹھکانے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ آخری امتحان کی تشریح و تفہیم بھی طویل ہے کیونکہ ہر صاحب علم اپنی دانش کے مطابق امتحانی پرچے کا خاکہ کھینچتا ہے۔ پرچہ وہی ہوگا جو اللہ کا مرتب کردہ ہوگا جو ہم انسانوں کی رسائی سے بہت دور ہے جس طرح ان کا فرمان ہے " اس کے علم کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا البتہ جسے وہ چاہے"۔ دنیا میں مدرسہ، اسکول، کالج،یونیورسٹی، کمیشن وغیرہ کے امتحانات ہوتے ہیں۔ ان میں درجہ بندیاں کسی بندے کو کسی ایک نہ ایک درجے پر بٹھا سکتی ہیں اور وہ ان کی بنیاد پر کسی ڈگری یا عہدے وغیرہ کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ہم نے دنیاوی اور دینی علوم کے سارے امتحانات کو ایک امتحان قرار دیا ہے کیونکہ ان کا مقصد ایک ہے۔ ان کے علاؤہ ایک اور امتحان ہے جسے ہم تہذیب و تمدن کا امتحان کہہ سکتے ہیں۔ اس امتحان کا کوئی تحریری پرچہ نہیں ہوتا اور نہ کسی جدول کے مطابق زبانی امتحان لیا جاتا ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی میں

آذربائجان ۔۔۔۔8

 آتشی مندر سرخانی: آج 31 اکتوبر کو ہم باکو شہر سے باہر کی دنیا دیکھنے کا ارادہ کیا۔ موسم یخ بستہ تھا۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور سیدھا اس جگہہ پہنچے جسے انگریز  لوگ فائر ٹمپل اور ایرانی اور اذربائیجانی آتش گاہ کہتے ہیں۔ ایک اونچی چار دیواری جو قلعے کی دیوار لگتی ہے، کے اندر کشادہ صحن کے دو اطراف میں نوادرات کی دکانیں اور ایک ہوٹل بنائے گئے ہیں۔ دایاں ہاتھ میں ایک طرف ایک دوسری ایک قلعہ نما پانج دیواری عمارت کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ یہ عمارت آتش گاہ ہے جس کے دروازے پر کتبے تو لگے تھے جو ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ اس مخمس دیواری عمارت کی اندرونی دیوار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے طاق نما کمرے، پست دروازوں کے ساتھ قدیم طرز کی تعمیر کی نظر آئے ۔ وسط میں ایک چبوترے پر کھڑی چار ستونی قربان گاہ  کے اندر تین فٹ اونچے دوسرے چبوترے کے اوپر آتشدان میں آگ جل رہی تھی۔ باہر بھی اس طرح کا آتش دان تھا جس کے کوئلوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ ہم نے قربان گاہ اور دیواروں کے ساتھ قطاروں میں بنے ان حجروں میں جھانکتے گئے۔ تنگ و تاریک کمرے تھے جن میں زرتشتی راہبوں اور ہندو سادھوؤں کے مجسمے نصب تھے جو مذہبی رسومات ادا کرتے

ماضی کی صاحب دیوان شاعرات

Image
 ہم میں سے بہتوں کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ماضی میں صاحب دیوان شاعرات بھی گزری ہیں۔ جب رضا علی عابدی کی تصنیف "کتابیں اپنے آبا کی" پڑھی  تو میں حیران  رہ گیا کہ اردو زبان کی کیسی کیسی با عظمت شاعرات متحدہ ہندوستان کی خاک سے اٹھی تھیں۔ انہوں نے اردو زبان کی کیسی آبیاری کی تھی۔ یہ ہم پر گورے حکمرانوں کا احسان ہے کہ انہوں نے ان کی تصانیف کو لندن میں محفوظ کرتے ہوئے انہیں ادبی تاریخ میں زندہ رکھا۔ ان کی تعداد کافی بڑی ہے ۔ یہاں ہم دو صاحب دیوان شاعرات کا مختصر تذکرہ عابدی صاحب کے حوالے سے پیش کریں گے۔ :نواب شاہجہان بیگم  ریاست بھوپال کی نواب تھیں۔ انہوں نے ریاستی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتی تھیں۔ رضا عابدی صاحب رقم طراز ہیں،"نواب شاہجہاں بیگم اردو کی بڑی محسنہ گزری ہیں۔ اپنے طویل حکمرانی میں سینکڑوں مسلوں اور دشواریوں کے باوجود اور اپنی ریاست کو ترقی کی منزل پر پہنچانے کی گوناگوں مصروفیتوں کے باوصف انہوں نے اردو ادب کے سرمایے میں جو گران قدر اضافہ کیا اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاہ جہاں بیگم نہ تو خود کبھی آرام سے بیٹھیں اور نہ اپنے قلم

تحریکِ نفاذ اردو پاکستان

 تحریک نفاذ اردو پاکستان ایک آئینی رضاکارانہ قومی تحریک ہے جس کی مرکزی قیادت عطاء الرحمن چوہان صاحب کر رہے ہیں۔ اس تحریک میں اپر چترال سے لے کر بلوچستان کے گوادر اور سندھ کے ٹھٹھہ تک کے محب وطن پاکستانی شامل ہیں جو نہ صرف اس تحریک کے لیے اپنا وقت دے رہے ہیں بلکہ تحریک کی ضروریات کے لیے عطیات بھی جمع رہے ہیں۔ ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ  فرمودات قائد اعظم محمد علی جناح، آئین پاکستان کی شق 251 اور عدالت عظمٰی کے احکامات  پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہماری قومی زبان اردو کو عملی طور پر اس کی آئینی حیثیت دی جائے۔ یعنی اردو ہمارے قومی اداروں کی تقریری اور تحریری زبان ہو۔ عدالت، پارلیمان، انتظامیہ، افواج پاکستان اور ملک کے اندر کاروبار کی زبان ہو۔ سول سروس کے امتحانات اردو میں لیے جائیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں اس کی لازمی حیثیت کو ختم کرکے اسے ایک غیر لازمی اختیاری مضمون قرار دیا جائے تاکہ انگریزی کے ساتھ دلچسپی نہ رکھنے والے بچے اس زبان کے غیر ضروری بوجھ سے چھٹکارا پا سکیں۔ شائقین انگش کے لیے اس کی اختیاری حیثیت میں موجود رہنا کافی ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا آئینی مطالبہ ہے۔ یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے ک

آذربائجان چلیں ۔۔۔7

Image
آذربائجان ۔۔۔7 میری ٹوپی (کھپوڑ) میری شناخت بن گئی۔ میں جب بھی باہر ملکوں میں جاتا ہوں میری چترالی ٹوپی ساتھ ہوتی ہے اور عموماً پہنے ہی رکھتا ہوں سوائے زیادہ گرم موسم کے۔ باکو میں موسم چترال جتنا سرد تھا اس لیے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ پہلے دن جب ہم پرانے شہر دیکھنے نکلے تو ایک آذربائیجانی صاحب نے سلام کے ساتھ میری ٹوپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان، پاکستان کہا۔ میں نے سلام کا جواب دیا، مصافحہ کیا اور سر کو ہاں میں جنبش دی اور زبان سے تصدیق کی کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اس کے بعد جگہہ جگہہ میری ٹوپی دیکھ کر ہماری پاکستانی شہریت کو بغیر تعارف کے جان لیا گیا۔ میرے ملک کے چھوٹے سے حصے کی ثقافت سے وطن کی شناخت  مجھے بہت اچھی لگی اور فخر محسوس ہوا۔ کیونکہ آج سے پچاس سال پہلے میرے اپنے صوبے کے لوگ بھی چترال سے نابلد تھے۔ آج چترالی ٹوپی چترال کی نہیں بلکہ پاکستان کی پہچان بن گئی ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ ثقافت قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ یہ سارا کریڈٹ ہمارے پشاور کے اسلام آباد بازار کے ان کاروباری اہل فن کو جاتا ہے جو گزشتہ چھ سات دھائیوں سے یہاں چترالی ٹوپی

آذربائیجان۔۔۔۔۔6

Image
میڈن ٹاور:یہ مینار بھی بارھویں صدی کا ہے اور یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل ہے۔ یہ پکی اینٹوں کی گول عمارت ہے جس کے اندر پھتروں کی سیڑھیاں بنی ہیں۔ مناسب اونچائیوں پر عمودی روشندان موجود ہیں جہاں سے باہر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مینار کے اندر آٹھ منزلیں ہیں جن میں سے تین چار کے اندر چند پرانی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ مینار کے اندر کمرے بعد میں بنائے گئے ہیں۔ ان کی ساخت بھی بتاتی ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہیں۔ اس کی ابتدائی ساخت شروع میں فرش سے بام تک کھلا تھا۔ مینار کی اونچائی 97 فٹ ہے جب کہ چڑھنے کے لیے 127 پھتر کی سیڑھیاں ہیں جو ایک سرنگ کے اندر لگی ہیں اور صرف ایک آدمی ایک وقت گزر سکتا ہے۔اس کی چھت سے پرانے شہر اور کیسپین سمندر کا خوب بصری سیر کی جا سکتی ہے۔ اس مینار کی تعمیر کا مقصد آج تک پوری طرح معلوم نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دفاعی مینار تھا اور کوئی زرتشتیوں کی مندر  بتاتا ہے۔ بعض محققین اس کی بنیاد کو چھٹی اور ساتویں قبل مسیح بتاتے ہیں جو پندرہ میٹر زمین کے اندر ہیں۔ اس مینار کے قریب قدیم گرجا گھر اور ایک پرانی مسجد کے کھنڈ

مے خوارِ حقیقت

Image
مے خوار حقیقت  (شیرولی خان اسیر) بلبل ولی خان بلبل  کو ارضی چمن چھوڑے چالیس دن گزر گئے۔ ان چالیس دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ان کی یاد نہ آئی ہو اور ان کا ذکر نہ ہوا ہو۔ جسمانی طور پر وہ ہم سے دور چلے گئے ہیں لیکن ان کے ساتھ بیتے لمحے تر و تازہ رہیں گے اور جب تک زندگی ہے بلبل کے نعموں کے الفاظ حس سماعت کو کیف و سرور پہنچاتے رہیں گے ۔ آج ان کی زندگی کے چند خفیہ رازوں کو زیب قرطاس کرنے کوشش کروں گا جو ان کی روحانیت کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور جو زندگی کے طویل سفر کے دوران میرے کمزور حافظے میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی خجالت نہیں ہو رہی کہ میں حافظے کے معاملے میں انتہائی کمزور واقع ہوا ہوں۔ اس لیے ان رازہائے نہاں سے تعلق رکھنے والی یادوں کو حرف بحرف لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا اور میں اپنی اس کوتاہی پر ان کے دوستوں اور پیاروں سے پیشگی معافی چاہتا ہوں۔ بلبل ولی خان سے ملاقات 1964 میں ہوئی جب میں نے سٹیٹ ہائی اسکول چترال کی نویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ ہم دونوں ایک ہی سیکشن میں تھے اور دونوں کے مضامین بھی ایک ہی تھے۔ دونوں آرٹس کے طالب العلم تھے او