ماضی کی صاحب دیوان شاعرات

 ہم میں سے بہتوں کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ماضی میں صاحب دیوان شاعرات بھی گزری ہیں۔ جب رضا علی عابدی کی تصنیف "کتابیں اپنے آبا کی" پڑھی  تو میں حیران  رہ گیا کہ اردو زبان کی کیسی کیسی با عظمت شاعرات متحدہ ہندوستان کی خاک سے اٹھی تھیں۔ انہوں نے اردو زبان کی کیسی آبیاری کی تھی۔ یہ ہم پر گورے حکمرانوں کا احسان ہے کہ انہوں نے ان کی تصانیف کو لندن میں محفوظ کرتے ہوئے انہیں ادبی تاریخ میں زندہ رکھا۔ ان کی تعداد کافی بڑی ہے ۔ یہاں ہم دو صاحب دیوان شاعرات کا مختصر تذکرہ عابدی صاحب کے حوالے سے پیش کریں گے۔

:نواب شاہجہان بیگم 

ریاست بھوپال کی نواب تھیں۔ انہوں نے ریاستی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتی تھیں۔ رضا عابدی صاحب رقم طراز ہیں،"نواب شاہجہاں بیگم اردو کی بڑی محسنہ گزری ہیں۔ اپنے طویل حکمرانی میں سینکڑوں مسلوں اور دشواریوں کے باوجود اور اپنی ریاست کو ترقی کی منزل پر پہنچانے کی گوناگوں مصروفیتوں کے باوصف انہوں نے اردو ادب کے سرمایے میں جو گران قدر اضافہ کیا اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاہ جہاں بیگم نہ تو خود کبھی آرام سے بیٹھیں اور نہ اپنے قلم کو آرام سے بیٹھنے دیا۔


انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ "نواب بیگم نواب بننے کے بعد خواتین کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور ان کے لیے بہت کچھ لکھا۔ اردو شاعری میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہ رہیں ۔ نواب شاہجہاں بیگم شیرین تخلص کرتی تھیں" نواب شاہجہاں بیگم نوابی امور کے ساتھ شاعری اور خواتین کی  آگاہی کے لیے بھی کام کرتی رہی تھیں ۔ان کے دیوان کا نام دیوان شیرین ہے جو انڈیا لائبریری میں محفوظ ہے ۔ اس کے چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔

عالم میں رسم و راہ مروت نہیں رہی 

مہر و وفا کی کچھ بھی حقیقت نہیں رہی

انسان تو کیمیا سے بھی نایاب ہو گیا

 اخلاص پر کسی کی بھی نیت نہیں رہی 

شیریں کسی سے مطلب دل کیا حصول ہو

نیکی کی اب کسی کو بھی ہمت نہیں رہی


ماہ لقا چندہ: ماہ لقا نام اور چندہ تخلص تھا۔ وہ خوبصورت خوش آواز رقاصہ تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا دیوان ایک مجرے کے موقع پر کیپٹن سرجان ویلکم کو پیش کیا تھا ۔ وہی قلمی نسخہ انڈیا آفس لندن میں رضا علی عابدی کے ہاتھ آیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اردو ادب کی کسی شاعرہ کا پہلا دیوان ہے۔ یعنی ماہ لقا چندہ اردو ادب کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔


نمونہ کلام: 

گر یوں ہی ہر دم ستم ایجاد کروگے 

تو خانہء الفت سبھی برباد کروگے

گر دام سے اپنے ہمیں آزاد  کروگے

 پھر کس سے یہ کنج قفس آباد کروگے

سمجھے ہے تمہارا ہے تصدق مرے مولا 

چندا کو جو کونین میں امداد کروگے 

ساغر کس کی چشم کے پی کر شراب دل

 پھرتا ہے بے خودانہ سا مست و خراب دل

 تیری نگاہ گرم سے باقی نہیں ہے کچھ

 یہ شعلہ رو جلا کہ ہوا ہے کباب دل

 چندا کو یہ غرض ہےکہ دونو جہاں میں

 اپنی طرف ہی رکھیو مرا بوتراب دل میں 

(حوالہ: کتابیں اپنے آبا کی، مصنف رضا علی عابدی)



















Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی