Posts

Showing posts from September, 2021

وادئ ‏ہنزہ ‏کی ‏ایک ‏جھلک۔۔۔6

ہنزہ کی پہلی معیاری درس گاہ آغا خان ہائیر سکینڈری اسکول کریم آباد، ہنزہ التیت اور بلتیت کے پرانے قلعے دیکھنے جانے کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے ہنزہ کی اس تاریخی درس گاہ میں بچوں اور اساتذہ کے ساتھ تبادلہ خیالات کا موقع ملا جس کا سنگ بنیاد اسمعیلی مسلم کمیونٹی کے روحانی پیشوا ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان نے 1983 میں اپنے دست مبارک سے رکھا تھا۔ 1986 سے اس ادارے نے اپنے علم و ادب کے سفر کا آغاز کیا تھا۔   شروع میں یہ اکیڈمی تھی۔ بعد  ازاں اسے ہائر سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا۔ ادارے کی سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ہزہائنس نے فرمایا تھا( ترجمہ) "یہاں کریم آباد میں دی آغا خان اکیڈمی شمالی علاقہ جات میں بچیوں کے لیے ہمارا پہلا ہائی اسکول اور اقامت گاہ ہوگی اور پاکستان میں ہماری ترقی کا سنگ میل ثابت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی کمیونٹی یا ملک کو عقل و دانش اور تخلیقی صلاحیتوں پر اجارہ داری حاصل نہیں ہوتی اور یہ مجھے  بہت ہی آہم لگتا ہے کہ آئیندہ سالوں میں شمالی علاقوں کا ہر وہ فرد جو تخلیقی صلاحیت رکھتا/رکھتی ہےاور جسے تعلیم تک رسائی حاصل ہے، چاہے وہ علمی ہو یا عملی، وہ فرد اپنے علم و دا

وادئ ہنزہ کی ‏ایک ‏جھلک۔۔5

وادئ ہنزہ کی ایک جھلک۔۔۔5 بلتت اور التت کے قلعے    میران ہنزہ کے بارے میں بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ ان کا اسماعیلی مذہب کے حوالے سے بھی بڑا نام ہے جب کہ گلگت بلتستان کی سیاست میں بھی پیشرووں میں آتے ہیں۔ انکو وراثت میں جو قدیم قلعے ملے تھے ان کے بارے میں ہمارا علم صفر تھا۔ جب آغا خان نٹ ورک کے ادارہ تحفظ ثقافت نے ان قلعوں کی بحالی کا ذمہ اٹھا کر انہیں پھر سے اصلی حالت میں بحال کیا تو ان کی شہرت ہم تک پہنچی۔ 1996 میں شیعہ امامی اسمعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا ہزہائنس پرنس کریم آغا خان چہارم نے صدر پاکستان فاروق احمد لغاری کو ساتھ لے کر اس کا افتتاح فرمایا تھا۔ پرانی چیزوں کو دیکھنے کا شوق مجھے ہمیشہ اس قسم کی تاریخی عمارتوں کی طرف کھینچتا رہا ہے۔ جس دن ہنزہ وادی کی سیر کا موقع ملا تھا اس وقت میرے ساتھ میرے گھر کے افراد کی ایک ٹولی تھی اور ڈرائیور ( برخوردارم صاحب کریم خان) پہاڑی علاقوں میں نیا نیا گاڑی چلا رہا تھا نیز گاڑی بھی نئی تھی۔ اس لیے بلتت قلعے کی چڑھائی چڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔وقت کی کمی بھی ایک وجہ تھی۔ 29 اور 30 اگست کی سیر سے جب واپس گلگت پہنچا تو برخورد عزیزم شمس ا

وادئ ‏ہنزہ ‏و ‏نگر۔۔۔4

Image
پیارے لوگ سہانی شام عطا آباد جھیل کے کنارے سے اس مہمان خانے کے پل پر قدم رکھنے کی ہمت نہیں ہوئی تو میں نے صاحب کریم خان کی جوان ہمت سے فایدہ اٹھایا اور اسے اس دیو مالائی قسم کی قیام گاہ کے اندر بھیجا۔ وہ بخیریت پل غبور کر گیا اور رزورٹ کے اندر گیا اور پھر واپس آکر ہمیں بھی پل غبور کرنے کو کہا۔ ہم بھی ایک ایک ہوکر پل سے گزرے اور قدموں کی معمولی اتار چڑھاؤ اور ڈگمگانے اور جسم کو ملنے والے ہلکے ہچکولوں کو ہم نے برداشت کر ہی لیا کیونکہ ہم اہل چترال اپنی سرکاروں کی کمال توجہ سے عمر بھر اس قسم کے جھولتے پلوں سے گزرتے رہے ہیں۔ آج سے پینسٹھ برس پہلے تک یارخون کے گاؤں پترانگاز اور اوڅھوہون کے مقام اتصال پر دریائے یارخون کے اوپر ایک پل ہوا کرتا تھا جسے تیلی سیری یعنی بید کا پل کہا جاتا تھا۔  یہ جالی پل بید اور سندر کی شاخوں کو بٹ کر بنائی گئی رسیوں سے بنا جھولا پل ہوتا تھا۔ چار موٹی رسیاں آر پار کینچھ کر دونوں اطراف میں دو دو دوشاخہ سخت لکڑی کے ستونوں کے اوپر سے گزار کر بڑے بڑے بھاری پھتروں باندھ دی جاتی تھیں۔ نیچے قدم رکھنے کے لیے قدم قدم پر انہی رسیوں کو باندھی جاتی تھی

وادئ ‏ہنزہ ‏و ‏نگر۔۔۔ ‏3 ‏

وادئ ہنزہ و نگر۔۔۔3 کاشانہء شناور ( floating cottage) شمال مغرب کی طرف دریائے ہنزہ کے اس پار مرحوم عطا آباد کی طرف دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ سینکڑوں فٹ اونچے ٹیلے پر آباد اس گاؤں کے پھسلنے اور دریائے ہنزہ کی راہ روکنے کی جانکاہ خبر نے ہم سب کے دل افسردہ کر دیا تھا۔ یہ ہولناک واقعہ جنوری  2010 میں پیش آیا تھا جس میں 19 قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں اور پورا گاؤں غرق آب ہوا تھا۔  پانج چھ سالوں تک ہنزہ کا بالائی حصہ یعنی گوجال عملا دنیا سے کٹ گیا تھا۔ عطا آباد سطح دریا سے کم و بیش پانج سو فٹ اونچا ہوگا۔ اس وقت یہ جگہ ایک بے گیاہ ڈھلان ہے۔ نیچے دریائے ہنزہ کا پانی کوئی دس کلومیٹر لمبی جھیل میں بدل گیا ہے۔ یہ جھیل نیلے آسمان کا ٹکڑہ بر سر زمین لگتی ہے۔ بتایا گیا کہ جب دریائے ہنزہ اس ہولناک لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر بہنے سے رک گیا تو یہ جھیل کم از کم 27 کلومیٹر تک پھیل گئی تھی اور جس میں گاؤں آئین آباد مکمل اور ششکت کا بڑا حصہ ڈوب گیا تھا۔ بند کو توڑ کر پانی خارج کرنے ساری تگ و دو ناکام ہوگئی تو حکومت چین کی مدد سے سرنگ نکالا گیا جو اس وقت کے کے ایچ کا حصہ ہے۔  عطا آباد جھیل کے جنوب مشرق میں ہمالی

وادی ‏ہنزہ ‏و ‏نگر ‏۔۔۔2

حسین اتفاق ڈی سی ہنزہ اپنے گھر آئے مہمانوں سے معذرت کرتے ہوئے جب جانے لگے تو ان کے چہرے سے تاسف کا ایک طوفان سا اٹھتا ہوا لگا۔ ایک طرف ان کے گھر ان کے استاد کا استاد معہ اہل و عیال مہمان تھا تو دوسری طرف انتہائی ضروری سرکاری مہمان کسی آہم تقریب کو رونق بخشنے والے تھے جہاں ضلع کے اعلے انتظامی افسر کا موجود ہونا، معزز مہمان کا استقبال کرنا اور پروٹوکول دینا ان کے فرائض منصبی میں سر فہرست حیثیت کے حامل امور تھے۔ وہ ذہنی طور پر دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں تسلیاں دیں کہ آپ بے فکر رہیے۔ ہم بے تکلف لوگ ہیں۔ ہمیں ان سرکاری معاملات اور مجبوریوں  کا بخوبی علم ہے۔ اتنے میں ان کی بیگم صاحبہ بھی سلام کے لیے حاضر ہوئیں۔ بڑی وضع دار خاتون لگیں گو کہ ہماری عمر کے حساب سے وہ  ابھی بچی ہی ہیں۔ مراسم آداب ادا کرنے کے بعد وہ خواتین کو لے کر زنان خانے چلی گئیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا تھا۔ دل بہت خوش تھا کیونکہ ہماری تہذیب و ثقافت ابھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی۔ اپنا ایک ڈپٹی کمشنر اکیسویں صدی میں بھی پوری طرح اپنی تہذیب و تمدن کا وراث آمین نظر آیا تھا۔ ان کے ضلعے میں صوبائی وزیر کی آمد کوئی اتف

وادئ ‏ہنزہ ‏و ‏نگر ‏۔۔۔۔1

وادئ ہنزہ و نگر ۔۔۔1ایک مدت سے دل میں شوق مچلتا رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے پیارے ملک کی ایک پیاری سی وادی کو بچشم خود دیکھ سکوں۔ تحریر و تقریر میں بہت کچھ سنا تھا مگر " شنیدہ کئے بود مانند دیدہ". دوستوں کی محفلوں میں جب بھی ذکر سیر و سیاحت چھڑتا تو مجھے شرمندگی سی ہوتی کہ میں پاکستان کے شمالی پہاڑی وادیوں میں سے ایک وادی کا باسی  ہوتے ہوئے بھی اپنے پڑوس میں واقع ملک کی خوبصورت ترین وادی کو دیکھنے نہیں پایا ہے۔ ارادہ کرتا رہا لیکن آب و دانہ وہاں کا شاید موخر تھا۔ کئی دفعہ گلگت آنے جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک مرتبہ سکردو، گھانچھے اور استور دیکھنے کا موقع اے کے آر ایس پی نے فراہم کیا تھا لیکن نگر اور ہنزہ کی جنت نظیر وادی کے اندر جھانکنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ پاک نے میری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کو گلگت میں خدمات کا موقع دیا اور اس کے وسیلے سے ہمیں گلگت آنے کا ایک بار پھر  سے موقع ملا۔ پہلے سے طے کیا کہ اس بار اضلاع نگر اور ہنزہ ضرور دیکھ لوں گا۔ گلگت آتے وقت آغا خان ہیلتھ سروسز پاکستان گلگت اور چترال کے ذمے داروں نے گاڑی کی سہولت فراہم کی تھی اس لیے اپنی گاڑی ساتھ نہیں ت