Posts

Showing posts from October, 2018

امہ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام فری آئی کیمپ

Image
  جیسا کہ پہلی تحریر میں بتایا تھا کہ رات گیارہ بجے تک ڈاکٹروں نے  آنکھوں کا اپریشن جاری رکھا۔ اس وقت تک  کوئی 13 گھنٹے کام کرچکے تھے۔ رات گیارہ  بجے تک جب بچی گھر واپس نہیں آئی تو مجھے تشویش ہوئَی اور بذات خود  ان کا حال پوچھنے  ٹی ایچ کیو ہسپتال بونی کےآپریشن تھیٹر پہنچا۔ دیکھا کہ آئی سرجن ڈاکٹر زاہد اور ان کی سرجیکل ٹیم مصروف کار تھی۔آئی سرجن کی اس مشقت کوشی کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے  چہرے پر انتہائی تھکاوٹ صاف نظر آرہی تھی جبکہ ان کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔ میں نے سوچا  کہ دنیا میں اب بھی مسیحا موجود ہیں۔ واقعی مسیحا ایسا ہوتا ہے جو اپنا آرام و سکون، اپنی نیند اور اپنی جسمانی خواہشات  دکھی انسانیت کے لیے قربان کردے۔   یہاں سینکڑوں میل دور سے ضعیف العمر مریض آئے ہوئے تھے۔ اس لیے ڈاکٹر نے آپریشن جاری رکھا تھا۔ اس طویل اور مسلسل کام  کی وجہ سےسرجن  عمر زاہد خٹک کی پیٹھ شاید بری طرح دکھ رہی تھی اس لیے ٹیم کی منتظم لیڈی ڈاکٹر افشان وقفے وقفے سے ان کی پیٹھ دبائے جارہی تھی۔ میں نے دکھی انسانیت کے ان خادموں کو دل کی گہرایوں سے دعائیں دیں اور آفرین کہا۔  مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر زہرہ ولی خان

امہ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام فری آئی کیمپ

Image
تین دن پہہلے مجھے یہ خوشخبری ٹی  ایچ کیو ہسپتال بونی کے ایم ایس نے کھڑے کھڑے دی تھی جب وہ  ہسپتال کی او پی ڈی کوریڈور میں  چند حضرات کے ہمراہ ملے تھے۔ وہ بہت جلدی میں تھے اس لیے اتنا بتا دیا کہ ایک دو روز بعد یہاں فری آئی کیمپ لگے گا۔  وہ اس سلسلے میں انتظامات کرنے جارہے تھے۔ میرا دل خوش ہوا کہ کم ازکم ضلع سے باہر کے ڈاکٹر صاحبان کو یہاں کی مجبور عوام پر رحم آیا۔ پھر تھوڑی تفصیل اپنی بیٹی ڈاکٹر زہرہ بولی خان کی زبانی ملی۔  معلوم ہوا  یہ مفت علاج کا اہتمام " امہ ویلفیر ٹرسٹ نوشہرہ " نے کیا ہے۔ یہ  تعجب کی بات ہے کہ  ہسپتال کے ایم ایس صاحب نے اس آہم کیمپنگ کی بابت اپنے سٹاف کے ساتھ میٹنگ نہیں کی تھی ہم نے سوچا کہ انتظامات مکمل طور پر کئے گئے ہوں گے۔ ہم نے بھی اپنے بڑھے بوڑھوں کو بلایا تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ببینائی واپس حاصل کرنے کا موقع پا سکیں۔ صبح کوئی دس بجے کے لگ بھگ مجھے فون کیا گیا کہ میں اپنے مریضوں کو متعلقہ  کلنیک پہنچاوں ۔ یہاں ایک بے ترتیب ہجوم سے واسطہ پڑا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں انتہائی بدنظم افراد میں گھر گیا ہوں۔  مریض بیچارے تو زیادہ بوڑھے اور ناتون قسم

چوری کا کھوج

میں نے اپنے بچپن کی چوری کا واقعہ  " اسیرو زندگی۔۔۔12" (کھوار زبان میں)میں بیان  کیا تھا جس کا کھوج لگانا دور کی بات چوری کی واردات کا  بھی کسی کو پتہ نہ چلا تھا لیکن ایک اور بڑی چوری کا کھوج اسی ذہین بںندے نے لگایا تھا جس کے یہاں سے میں نے  زندگی کی پہلی چوری کی تھی۔ اپنی اس پہلی چوری کا واقعہ میں نے اپنے ایک کالم "معصوم چور" کے عنوان  سے عرصہ پہلے لکھا تھا جو شاید چترال ٹوڈے کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ آج جس چوری کے کھوج کی بات کرنے جارہا ہوں یہ واقعہ "بانگ گول"کے "گراگار" نام کی غاری میں پیش آیا تھا اور میرے والد محترم لغل  خان لال المعروف چارغیریو لال( اللہ انہیں معفرت نصیب کرے) نے اس کا کھوج لگایا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ سٹوری سناوں، علاقے  اور اس مضمون میں مذکور ہونے  والےکھوار ناموں اور اصطلاحات کا مختصر تعارف ہوجائے تو غیر چترالی قاری کو سمجھنے  میں آسانی ہوگی۔ گاوں بانگ چترال کی وادئ یارخون کے قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے جو چترال سے 155 کلومیٹر، مستوج سے  45 اور یارخون کے پہلے گاوں  بریپ سے 20 کلومیٹر شمال مشرق میں دریا یارخون کی دا

چیغیچ اور پندار

چیغیچ" اور "پندار"  کھو  یعنی چترالی ثقافت میں کئی خوبصورت رسمیں تھیں جو اب ناپید ہوچکی ہیں۔ ہم  نے بدیشی معاشرتی رسوم و رواج کو پسند کرنا شروع کیا۔ اپنی روایات دقیانوسی لگنے لگیں۔ اس لیے ایک ایک کرکےانہیں اپنی ثقافت کے خزانے سے نکال پھینک دینے  کو اپنی عزت میں اضافے کا باعث سمجھنے لگے۔  ہم نے دوسروں کے طور طریقے اپنانے میں  ایکدوسرےسے بازی لے جانے پھرتی دکھائی اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ ثقافت اثر اور تغیر پذیر ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ تغیر میں زندگی ہے اور جمود مردگی ہے۔ آج اگر سو سال پہلے کا گزرا ہوا آدمی زندہ ہوجائے تو وہ حیران ووپریشان ہوگا کہ وہ ان اجنبی لوگوں اور اجنبی معاشرے  میں کیسے آیا؟  اسے نہ ہماری کھوار سمجھ آئیگی اور نہ رہن سہن اور رسم و رواج جانے پہچانے لگیں گے۔۔مثال کے طور پر ہم شادی بیاہ کے رسم و رواج کو لیں۔ ۔  اس میں سوائے چند چھوٹی موٹی رسموں کے تمام طور طریقے بدل چکے ہیں۔ منگنی سے لے کر دلہن کی رخصتی تک اور  دلہن کے ملبوسات تک کوئی چیز بھی قدیم روایات سے میل نہیں  کھاتی۔ یہاں تک کہ چترالی " سور بند" کا ڈیزائین بھی تاج نما بن گیا ہے۔ جن عروس