امہ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام فری آئی کیمپ




تین دن پہہلے مجھے یہ خوشخبری ٹی  ایچ کیو ہسپتال بونی کے ایم ایس نے کھڑے کھڑے دی تھی جب وہ  ہسپتال کی او پی ڈی کوریڈور میں  چند حضرات کے ہمراہ ملے تھے۔ وہ بہت جلدی میں تھے اس لیے اتنا بتا دیا کہ ایک دو روز بعد یہاں فری آئی کیمپ لگے گا۔  وہ اس سلسلے میں انتظامات کرنے جارہے تھے۔ میرا دل خوش ہوا کہ کم ازکم ضلع سے باہر کے ڈاکٹر صاحبان کو یہاں کی مجبور عوام پر رحم آیا۔ پھر تھوڑی تفصیل اپنی بیٹی ڈاکٹر زہرہ بولی خان کی زبانی ملی۔  معلوم ہوا  یہ مفت علاج کا اہتمام " امہ ویلفیر ٹرسٹ نوشہرہ " نے کیا ہے۔ یہ  تعجب کی بات ہے کہ  ہسپتال کے ایم ایس صاحب نے اس آہم کیمپنگ کی بابت اپنے سٹاف کے ساتھ میٹنگ نہیں کی تھی ہم نے سوچا کہ انتظامات مکمل طور پر کئے گئے ہوں گے۔ ہم نے بھی اپنے بڑھے بوڑھوں کو بلایا تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ببینائی واپس حاصل کرنے کا موقع پا سکیں۔

صبح کوئی دس بجے کے لگ بھگ مجھے فون کیا گیا کہ میں اپنے مریضوں کو متعلقہ  کلنیک پہنچاوں ۔ یہاں ایک بے ترتیب ہجوم سے واسطہ پڑا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں انتہائی بدنظم افراد میں گھر گیا ہوں۔  مریض بیچارے تو زیادہ بوڑھے اور ناتون قسم کے لوگ تھے۔ ان کے ساتھ اٹنڈنس کا ہجوم تھا۔  ہر کسی کو حدشہ نظر آرہا تھا کہ وہ اس سہولت سے محروم رہ جائیگا۔کوئی  کسی دوسرے کو راستہ دینے کا ہوش نہیں رکھتا تھا۔ میں کسی نہ کسی طرح اپنے مریضوں یعنی نوے سالہ چچی اور پچھتر سالہ بھائی کو اپریشن تھیٹر کے تنگ  دامن  ویٹنگ روم پہنچانے میں کامیاب ہوا کیونکہ چند شاگردوں نے میری مدد کی۔ یہاں ایک اور نقشہ تھا۔ بوڑھی خواتین ننگے فرش پر بیٹھی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا یا ان کو اس کا ہوش نہیں تھا۔  بوڑھی مائیں مسلسل شکوے جھاڑ رہی تھیں کہ ان کو اس طرح انتظار کیوں کرایا جارہا ہے۔ ہر کوئی اپریشن تھیٹر میں گھسنے کی تگ و دو تھا۔
ایک طرف مریضوں کی بے صبری اور بدنظمی تو دوسری طرف مشینیں رکھنے کے لیے کوئی  سٹینڈ ٹیبل نہیں تھی۔ ایک رحشہ زدہ سٹینڈ کے اوپر مشین کو بیلنس کرتے ہوئے لیڈی ڈاکٹر اور ٹیکنیشین کا پورا گھنٹہ ضائع ہوا۔ وہ بھی تب جب ہم نے اپنے ناتون ہاتھوں سے ٹائلز کے تین ٹکڑے اس کی بریدہ ٹانگوں کے نیچے  رکھ کر اس کی لرزیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے مجھے انداز ہوا کہ ہسپتال انتظامیہ نے کیمپنگ کی ضروریات مہیا کرنے میں یا تو بڑی کمزوری یا غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ سارا کام  کیمپنگ سے ایک روز قبل  ہونا چاہیے تھے تاکہ مقررہ  تاریخ کی صبح وقت پر کلنیک اور اپریشن شرع ہوجاتا۔ نہ مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ میڈیکل ٹیم کو یہ تاثر ملتا کہ چترال کے لوگ  انتہائی بے صبر اور غیر مذہب ہیں۔
چترال وہ لاوارث ضلع ہے جہاں پورے ضلعے کے اندر ایک  بھی آئی سپیشلسٹ نہیں ہے جبکہ موتیا کے مریضوں کی تعداد یہاں دوسرے اضلاع کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہے۔ عوام کو اطلاع دی گئی کہ مورخہ 27 اور 28 اکتوبر کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال  بونی میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے آئی سپیشلسٹ غریب مریضوں کا مفت علاج کریں گے۔ اس خبر سے  بینائی سے کلے یا جزوی محروم مرد خواتین صبح سویرے سویرے  سینکڑوں کلومیٹر دور گاونوں سے یہاں پہنچے تاکہ  رجسٹریشن میں پہل کرسکیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے میں ہسپتال کے اندر اپنی بیٹی کی رہائیشگاہ میں موجود ہونے اور بیٹی اس ہسپتال میں ڈاکٹر ہونے کے باوجود میرے تین عزیزوں کو 119، 123  124 نمبر ملے۔  ان میں دو کا معائینہ بھی نہ ہوسکا۔ ضلعی ہیلتھ انتظامیہ اور بونی ہسپتال کے ایم ایس کو چاہیے تھا کہ وہ امہ ویلفیر ٹرسٹ  کو اس بابت پہلے سے بریف کرتے کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس حساب سے سرجنز اور دوسرا عملہ ہونا چاہیے۔  اس وقت رات کے 11 بج چکے ہیں ڈاکٹروں کا کام جاری ہے۔ انہوں نے ابھی تک رات کا کھانا بھی نہیں کھایا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی