Posts

Showing posts from January, 2023

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ

Image
بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت حافظ سے نوازا ہے۔ قدیم زمانے کے لوگوں کا حافظہ مضبوط تھا۔ اس کی ایک وجہ لکھت پڑھت کا نہ ہونا تھی۔لوگوں کو اپنا شجرہ نسب، بزرگوں کے اقوال اور نصیحتیں سب کچھ اپنے حافظے میں محفوظ کرنا ہوتا تھا۔ جب تعلیم کا رواج ہوا تو حافظ پر بوجھ ہلکا ہو گیا۔ لوگ اپنی یادداشتیں کاغذ کے سپرد کرنے لگے۔ یہاں سے قوت حافظہ کی کمزوری کا آغاز ہوا۔ آج ہم جب کچھ پرانا واقعہ کسی کو سناتے ہیں تو وہ حیرانگی کا اظہار کرتا ہے کہ آپ نے یہ کیسے یاد رکھا حالانکہ اپنے ہم عصروں میں میں ہی سب سے کمزور حافظے کا مالک ہوں۔  میرے ہم عمر دوست احباب میں  مرحوم گل مراد خان حسرت اور بلبل ولی خان بلبل بلا کا حافظہ رکھتے تھے مگر افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشت تحریری طور پر محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر عنایت الله فیضی کو بھی خداوند تعالیٰ نے مضبوط حافظ کی نعمت سے نوازا ہے اور وہ اس میں محفوظ یاداشت ہمارے ساتھ خوب بانٹ رہے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور صاحب اللہ کے فضل و کرم سے حیات ہیں۔ ان کو ہم چترال کی چلتی پھرتی تاریخ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چترال کی یہ زندہ تاریخ موڑکھو چ

آذربائجان ۔۔۔9

ینار داغ (جلنے والا پہاڑ)  آذری ترکی زبان میں ینار آگ کو کہتے ہیں اور داغ پہاڑ کو۔ ینار داغ کو شعلہ فشاں پہاڑ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے آتش فشان پہاڑوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں جو آگ کا سیلاب اگلتے ہیں اور اپنے اردگرد تباہی مچاتے ہیں۔ یہ آتش فشان ماحول دوست ہے اور آذربائیجانی کے لیے زر مبادلہ کماتا ہے۔۔ قدرت کا یہ عجوبہ ہر سیاح کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔اذربائیجان سیاحت کے لیے آنے والا ہر فرد اس جلنے والی پہاڑی کو دیکھنے کا  یقیناً شوق رکھے گا۔ جو لوگ مذہبی لحاظ سے آگ کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں ان کے لیے یہ زیارت گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آذربائیجانی کی سرزمین کو قدرتی تیل اور گیس سے مالامال کر رکھا ہے۔ ضلع اب گٹھشرون میں واقع مسلسل جلنے والی یہ آگ بعض محققین کے مطابق گزشتہ چار ہزار سالوں سے جل رہی ہے۔ یہ کبھی نہیں بجھی۔ بعض روایات کے مطابق 1950 کی دھائی میں کسی چرواہے کے سگریٹ پینے کے بعد اس کا جلتا ہوا ٹکڑا زمین پر پھینکنے کے عمل سے اس پہاڑی نے آگ پکڑی تھی۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں آذربائیجانی حکومت کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا اور اسے تاریخی اثاثے کے طور پر اپنی تحویل میں لے لیا۔ چار پانج سال پ

نوغ سال/ سال غیریک

 گریگورئین کلینڈر کے مطابق نیا سال جنوری کی پہلی تاریخ منایا گیا۔ ایرانی کلینڈر کے مطابق 21 مارچ کو منایا جائے گا۔اسلامی جنتری کی پیروی کرنے کی راہ میں یوم عاشورہ حائل ہے۔ ہم اہل چترال کا اپنا یوم نو کا جشن ہوا کرتا تھا جس کا نام وادی مستوج اور یارخون میں سال غیریک تھا۔ غالباً بالائی چترال میں یہی نام رائج تھا اور یہ نئے سال کا پہلا دن ہوا کرتا تھا۔وادی لوٹکوہ میں اسے" پھاتک" کے نام سے مناتے ہیں البتہ ان کی تاریخ کے مطابق سال نو سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ حضرت پیر ناصر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کی چلہ کشی کی یادگار کے طور پر پھاتَک ہر سال یکم فروری کو منایا جاتا ہے۔ مجھے اس کا علم نہیں کہ تورکھو اور موڑکھو میں کب سے سال غیریک منانا چھوڑ دیا گیا اور کیوں؟ جہاں تک تحصیل مستوج میں اس قدیم تہوار کو چھوڑ دینے کی بات ہے تو یہ عرصہ کم و بیش پینتیس چالیس سال کا ہوگا کہ اس کی جگہہ نو روز نے لے لی ہے یا جان بوجھ کر اسے دلائی گئی۔ سالغیریک کی رسموں میں مقامی رہنمایانِ مذہب کو کافرانہ چیزیں نظر آگئیں لہذا اس تہوار کی بساط ہی لپیٹ دی گئی اگرچہ ان نامعقول قسم کی رسمیں پہلے ہی سے ترک ہو چکی تھیں۔ہم

یوم چترال/ ݯھترارو انُس

 گذشتہ تین چار سالوں سے چترال کے نوجوان اور فلاحی تنظیمات چترال ڈے کے نام سے پشاور شہر میں ایک جشن کا انتظام کر رہے ہیں۔ جس میں مختلف مروجہ کھیلوں، قراءت، حمد اور نعت  خوانی اور تقریری مقابلے کرواتے ہیں۔ اول دوئم سوئم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو انعامات دینے کے علاؤہ چترال کے اندر صحت، تعلیم، ادب، موسیقی وغیرہ شعبوں میں اچھی کارکردگی کے حامل خواتین و حضرات کو تعریفی ایوارڈ بھی دیتے ہیں۔ پچھلے سال فروری کے پہلے ہفتے میں چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشنل اینڈ ہیلتھ نے اس ایونٹ کو منایا تھا اور راقم ک بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس سال 24 اور 15 جنوری کو اس کا انعقاد ہوا۔ قشقار فاؤنڈیشن چترال اور تریچمیر بیک پیکرز کلب نے پشاور ضلعی انتظامیہ، ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس اور کلچر کے پی کے تعاؤن سے اس جشن کا انتظام کیا۔ 14 جنوری 2023 کی صبح دس بجے اس کی افتتاح تقریب منعقد ہونا تھی۔ اپنی عادت سے مجبور میں پانج منٹ کم دس بجے اپنے پوتے ارحم علی سرنگ کے ساتھ پشاور سپورٹس کمپلکس پہنچا تو منتظمین کے علاؤہ کوئی بندہ موجود نہیں تھا۔ ہم نے اشیائے خوردونوش کے اسٹال میں لگائے کرسیوں پر بیٹھ کر دھوپ

ہیروڈوٹس کا سفرنامہ

 جب اس کتاب کا اشتہار پڑھا تو فوراً آرڈر کر دیا۔ کتاب پہنچ گئی تو کتاب کے حجم اور قیمت میں بڑا سا فرق نظر آیا۔ کتب پتلی اور قیمت موٹی۔اگرچہ علمی ذخیرے کی کوئی قیمت لگائی نہیں جا سکتی تاہم ملک میں گنتی کے چند افراد ہی کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا جنون پالتے ہیں ان کی مہنگائی کے ہاتھوں مفلک الحال جیبیں خالی کرنا کوئی انصاف نہیں۔ ہو سکے تو  ڈاکٹر فیضی، مشتاق حسین بخاری،  پروفیسر ممتاز اور اس قبیل کے سینکڑوں دوسرے عاشقانِ کتب کو مفت کی کتابیں بھیجی جائیں۔ خیر ایک سو تئیس صفحات کی کتاب کی قیمت 700 روپے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے میں کتاب کے شروع میں متعلقہ صفحے میں قیمت کا اندراج دیکھا تو جگہہ خالی تھی۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ قیمت مٹائی گئی تھی۔ کرید کر مٹائی گئی تھی۔ اس قسم کی حرکتیں عام دکانداروں سے بعید نہیں البتہ کتاب بیچنے والوں کو ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ مصنف، پبلشر اور خریدار کے ساتھ دھوکہ کرے۔ ہیروڈوٹس بابائے تاریخ کے لقب سے ملقب ہیں۔ لہٰذا اسے پڑھنے کا شوق عہد قدیم کو کھوجنے کی آرزو رکھنے والوں کے لیے انہونی بات نہیں ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ شیخ ریاض احمد نے اور اشاعت بک فورڈ لاہور نے