آذربائجان ۔۔۔9

ینار داغ (جلنے والا پہاڑ)
 آذری ترکی زبان میں ینار آگ کو کہتے ہیں اور داغ پہاڑ کو۔ ینار داغ کو شعلہ فشاں پہاڑ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے آتش فشان پہاڑوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں جو آگ کا سیلاب اگلتے ہیں اور اپنے اردگرد تباہی مچاتے ہیں۔ یہ آتش فشان ماحول دوست ہے اور آذربائیجانی کے لیے زر مبادلہ کماتا ہے۔۔
قدرت کا یہ عجوبہ ہر سیاح کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔اذربائیجان سیاحت کے لیے آنے والا ہر فرد اس جلنے والی پہاڑی کو دیکھنے کا  یقیناً شوق رکھے گا۔ جو لوگ مذہبی لحاظ سے آگ کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں ان کے لیے یہ زیارت گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آذربائیجانی کی سرزمین کو قدرتی تیل اور گیس سے مالامال کر رکھا ہے۔ ضلع اب گٹھشرون میں واقع مسلسل جلنے والی یہ آگ بعض محققین کے مطابق گزشتہ چار ہزار سالوں سے جل رہی ہے۔ یہ کبھی نہیں بجھی۔ بعض روایات کے مطابق 1950 کی دھائی میں کسی چرواہے کے سگریٹ پینے کے بعد اس کا جلتا ہوا ٹکڑا زمین پر پھینکنے کے عمل سے اس پہاڑی نے آگ پکڑی تھی۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں آذربائیجانی حکومت کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا اور اسے تاریخی اثاثے کے طور پر اپنی تحویل میں لے لیا۔ چار پانج سال پہلے یہاں ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا اور اسے محکمہ سیاحت کے قبضے میں دیا گیا۔
یہاں اس آگ کو دیکھنے کے لیے دس منت (پاکستانی روپوں میں 1350 روپے) کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ جب ہم اس احاطے میں داخل ہوئے تو ایک خاتون ہماری رہنما بنی۔ اس چار دیواری کے اندر قدم رکھتے ہی بالکل سامنے کوئی چار پانج میٹر گہری،  دو سو میٹر لمبی اور پانج چھ میٹر چوڑی کھائی کے اندر پہاڑی کے دامن کو جلتا ہوا پایا۔ آگ ہمارے سامنے پہاڑی کی بنیاد کے ساتھ کم از کم ایک ڈیڑھ میٹر اونچی اور تین میٹر لمبی جگہہ لے رکھی تھی۔ شمالی تند و تیز ہوا کے تھپیڑوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی۔ ہم یہاں پانج منٹ کے لیے بھی اس یخ بستہ ہوا کے سامنے نہیں ٹھہر پائے اور جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گئے اور شعلوں کے قریب جا کر ان کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے جسموں کو بھی حدت پہنچاتے رہے۔ میں نے فوٹو گرافی کے بہانے اپنی بوڑھی کمر اور برف بنتی پیٹھ کو بھی گرم کیا۔ دل چاہ رہا تھا کہ یہاں کھڑے آگ کی گرمی کا لطف اٹھاتا رہوں۔اللہ تیری قدرت کی کوئی انتہا نہیں! زمین کے اندر سے، نرم پہاڑی پھتروں کی باریک سوراخوں سے ایک خاص مقدار میں نکلنے والی گیس ایک توزن کے ساتھ شعلہ فشاں ہے۔ سردی ہو یا گرمی، بارش ہو کہ برف باری یہ آگ ایک خاص مقدار میں جلتی رہتی ہے۔ 
میں نے ان دھکتی پتھروں میں جلتے سکے بھی دیکھے اور گائڈ سے پوچھ لیا تو اس کا کہنا تھا کہ آگ کو مقدس سمجھنے والے لوگ اس پر سکے نچھاور کرتے ہیں۔ مجھے انسانوں کی نادانی کا بہت افسوس ہوا۔ دل ہی دل میں کہا اس کمر توڑ مہنگائی میں سکے جلانا کہاں کی عقل مندی ہے؟
اس وقت ہوا کافی تیز تھی۔ میں نے اپنے کان ڈھانپ رکھے تھے۔ شمال کی طرف منہ کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں تھی کیونکہ فورآ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی لگ جاتی تھی۔ یہ باد تند اتنے زور سے شعلوں کے ساتھ ٹکراتی تھی کہ ہیلی کاپٹر کی اڑان کی سی آواز آ رہی تھی اور مجھے اپنی وادی یارخون کے درہ تھوئی کی آندھی یاد دلا دی جب وہ چلتی ہے تو شمال مشرق کی طرف منہ کرکے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ینار داغ کے شعلے جنوب کی طرف جھکے ہی رہے۔ زور دار ہوا انہیں سر اٹھانے نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے شعلوں کی اونچائی کا درست تخمینہ نہ لگا سکا۔
ہماری گائیڈ خاتون نے ہمیں اس پہاڑی پر چڑھ کر اردگرد علاقے کا نظارہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ہم بھی بیس تیس فٹ اوپر چڑھ بھی گئے لیکن اس بدمزاج ہوا کا مقابلہ نہ کر سکے اور علاقے کا نظارہ کرنے سے رہ گئے اور بھاگم بھاگ واپس آگئے ۔ کوئی دس منٹ یہاں قائم چھوٹے عجائب گھر دیکھا جس میں کوئی خاص قابل دید چیز مجھے نظر نہیں آئی سوائے لکڑی کے چند بتوں کے جو ہمارے کلاشوں کے جستکان میں استادہ بتوں سے ملتے جلتے تھے۔ زرتشتیوں کی تاریخ چند کتبوں پر مرقوم آویزان تھی۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی