Posts

Showing posts from October, 2022

اردو کے صاحب دیوان فرنگی شعراء

اردو کے صاحب دیوان فرنگی شعراء ہمیں اپنے سابقہ فرنگی آقاؤں سے یہ شکایت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنا غلام بنایا اور ہماری تہذیب کا جنازہ نکال دیا۔ اپنی زبان اور کلچر ہم پر مسلط کیا۔ بر صغیر پاک و ہند سے جاتے جاتے  بھی اپنے پیچھے ایسے مقامی وارث چھوڑ گئے جو آج تک مغرب کی غلامی پر نازاں ہیں۔ آج بھی ان کی نقل اتارتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور ملک کے اندر ان کا نظام تعلیم و تربیت اور حکمرانی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کی درجنوں خرابیوں کے باوجود ان کی چند ایک خوبیاں بھی تھیں۔ جن میں معاشی،علمی اور اقتصادی ترقی میں ان کا کردار قابل قدر ہے۔ اردو اور ہندی زبان و ادب کے فروع میں انہوں بہت بڑا کام کیا ہے۔ زبان و ادب اور ادیبوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں انہوں نے پیش رو کا کردار ادا کیا ہے۔ میں آج تک اس بات سے واقف نہیں تھا کہ فرنگیوں میں بھی کوئی اردو زبان کا شاعر گزرا ہے۔ خدا بھلا کرے رضا عابدی صاحب کا  کہ ان کی تصنیف " کتابیں اپنے آباء کی " اور محترم شیر علی برچہ ہنزائی کا کہ انہوں نے اس نایاب کتاب کو مجھے تحفہ کیا تھا۔ معروف صحافی، محقق اور ادیب رضا علی عابدی کے مطابق سو

کھو ثقافت میں رشتے بنانے کا رواج

خونی اور رضاعت کے رشتوں کے علاوہ کھو ثقافت میں اور طرح کے رشتے بنانے کا ایک عام رواج تھا۔ ان میں ایک"ݰوشپ لاسیک" تھا۔ دو بندے یا گھرانے آپس میں رشتہ قائم کرنا چاہتے تو ایک آدمی دوسرے کو اپنا منہ بولا بیٹا بنانے کے لیے ایک رسم ادا کیا کرتا تھا۔ اس رسم کی ادائیگی کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب میں باپ بننے والا بیٹا بننے والے کو ݰوشپ (چترال کی ایک مشہور روایتی خوراک) کا نوالہ اپنے ہاتھ سے کھلاتا تھا۔ اس کے بعد وہ ݰوشپ کا نوالا کھانے والا کھلانے والے کا ݯھیر ژاو  یعنی رضاعی بیٹے کا درجہ حاصل کرتا اور ان  تمام پسری فرائض کا پابند ہوتا تھا جو ایک سگا یا رضاعی بیٹا اپنے ماں باپ کے حقوق کے بارے میں پابند ہوتا ہے۔ اسی طرح سوائے وراثت میں حصہ کے اسے سگے بیٹے کے حقوق بھی حاصل ہوتے تھے جس میں تہواروں کے موقعوں پر "بݰ" (اس تہوار کی خاص خوراک میں حصہ بطور تحفہ) بھیجنا شامل تھا۔ یوں ان دو افراد کے علاوہ دو گھرانوں میں محرمانہ رشتہ قائم ہو جایا کرتا تھا اور دونوں گھرانوں بلکہ خاندانوں کے افراد اس رشتے کا احترام کرتے تھے۔آج کل یہ رسم متروک ہو چکی ہے۔ اسی طرح خدا ناخواستہ کبھی کسی مرد کو

یارخون میں موبائل لائبریری

یارخون میں موبائل لائبریری آج کل لائبریری کا نام طاق نسیاں کے حوالے ہوا جا رہا یے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب ہمیں کالج لائبریری میں اپنی ضرورت اور پسند کی کتابوں کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا جب دوسرے ساتھی واپس کریں گے تو ہم اپنے نام ایشو کروائیں گے۔ آج یہ حال ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا کتاب خوان لائبریری کا رخ کرتا ہے۔ لائبریرین کتب بینوں کے انتظار میں بیٹھے بیزار ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دانشور اس منفی رجحان کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کی اولاد کا مستقبل علم و دانش سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ موبائل فون اور انٹر نٹ کی سہولت سے بآسانی دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں تک رسائی ممکن ہوگئی ہے تاہم یہ جدید سہولیات کسی طور بھی ہاتھ میں پکڑی کتاب کا متبادل نہیں ہو سکتیں نیز یہ الیکٹرانک ڈیوائسز انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت اور اخلاقیات پر بھی برے اثرات ڈال رہے ہیں۔ یہ غریب والدین پر زائد مالی بوجھ بھی ڈال رہے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ تک رسائی مفت میں ممکن  نہیں ہے۔  یہ بات ہمارے لیے خوش آ ئند ہے کہ وادی یارخون کے چند نوجوان طلبہ جو پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، نے وقت کے اس اہم مسلے