کھو ثقافت میں رشتے بنانے کا رواج

خونی اور رضاعت کے رشتوں کے علاوہ کھو ثقافت میں اور طرح کے رشتے بنانے کا ایک عام رواج تھا۔ ان میں ایک"ݰوشپ لاسیک" تھا۔ دو بندے یا گھرانے آپس میں رشتہ قائم کرنا چاہتے تو ایک آدمی دوسرے کو اپنا منہ بولا بیٹا بنانے کے لیے ایک رسم ادا کیا کرتا تھا۔ اس رسم کی ادائیگی کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب میں باپ بننے والا بیٹا بننے والے کو ݰوشپ (چترال کی ایک مشہور روایتی خوراک) کا نوالہ اپنے ہاتھ سے کھلاتا تھا۔ اس کے بعد وہ ݰوشپ کا نوالا کھانے والا کھلانے والے کا ݯھیر ژاو  یعنی رضاعی بیٹے کا درجہ حاصل کرتا اور ان  تمام پسری فرائض کا پابند ہوتا تھا جو ایک سگا یا رضاعی بیٹا اپنے ماں باپ کے حقوق کے بارے میں پابند ہوتا ہے۔ اسی طرح سوائے وراثت میں حصہ کے اسے سگے بیٹے کے حقوق بھی حاصل ہوتے تھے جس میں تہواروں کے موقعوں پر "بݰ" (اس تہوار کی خاص خوراک میں حصہ بطور تحفہ) بھیجنا شامل تھا۔ یوں ان دو افراد کے علاوہ دو گھرانوں میں محرمانہ رشتہ قائم ہو جایا کرتا تھا اور دونوں گھرانوں بلکہ خاندانوں کے افراد اس رشتے کا احترام کرتے تھے۔آج کل یہ رسم متروک ہو چکی ہے۔
اسی طرح خدا ناخواستہ کبھی کسی مرد کو اپنی بیوی پر کسی دوسرے مرد کے ساتھ ناجائز تعلق کا شک ہو جاتا  تو اس شک کو دور کرنے کے لیے ان مشکوک مرد و زن میں ݯھیر ژاو اور ݯھیر نن (رضاعی بیٹا اور رضاعی ماں)کا رشتہ قائم کیا جاتا تھا۔ یعنی وہ عورت اگر زچہ ہو تو وہ اس مرد کو اپنا دودھ پلاتی اور اگر نہ ہو تو پھر ݰوشپ کا نوالہ کھلا کر اسے بیٹا بناتی تھی۔ اس کے بعد نہ صرف وہ شک دھل جاتا بلکہ ان گھرانوں میں مستقل مادرانہ اور فرزندانہ رشتہ قائم ہو جایا کرتا تھا۔
ان کے علاوہ جب کسی لڑکی کا بیاہ ہو جاتا تو اس موقعے پر ݯھیر تت اور ݯھیر نن (رضاعی باپ اور ماں) بنانے کا رواج بھی تھا۔ یہ رشتہ بغیر دودھ پلائے یا ݰوشپ کھلائے بن جایا کرتا۔ دلہن کے ماں باپ اپنے  پڑوسیوں میں سے، خاص کر کے ان افراد میں سے جن کے ساتھ پہلے سے رضاعت کا پرانا رشتہ قائم ہو، کو اپنی بیاہ جانے والی بیٹی کے لیے رضاعی ماں اور باپ نامزد کرتے تھے۔ عموماً اونچے خاندان کے لوگ اس قسم کے رضاعی ماں باپ بناکر اپنی بیٹی کی رخصتی پر اس کی کی  برات میں شامل کیا کرتے۔ یہ رضاعی ماں باپ دلہن کے ساتھ اس کے سسرال جاتے اور دلہن کے سسرالی ان کے ساتھ روایتی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے۔ ان کو اچھے لباس تحفہ کیا کرتے اور حسب رتبہ بندوق بیل وغیرہ اوسیل (نذرانہ) پیش کیا کرتے۔ اس کے بعد یہ رضاعی ماں باپ اپنی زندگی کے اختتام تک اس رضاعی بیٹی کو حسب استطاعت بھیڑ بکریاں، گائے،بستر اور دوسرے گھریلو سامان بطور جہیز اور تہواروں میں "بݰ" بھیجا کرتے تھے۔ رضاعی ماں باپ کے گزر جانے کے بعد ان کے بیٹے بھی اس رشتے کو نبھائے رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ بیٹی بھی اپنے ان رضاعی والدین کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر کیا کرتی تھی۔ ثقافت میں تبدیلیوں کے ساتھ یہ رسمیں بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ختم ہو گئی ہیں۔
(نوٹ) مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ روایات چترال کے دوسرے حصوں میں بھی تھیں یا نہیں۔ میں نے جس سماج میں زندگی گزاری ہے یہاں ان کا وجود تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی