Posts

Showing posts from February, 2020

آئرلینڈ یاترا۔۔۔13

سینٹ این پارک st.Anne's Park اگرچہ وسط جنوری کی سردی کافی ستا رہی تھی پھر بھی آئرلینڈ کی خوبصوت اور دلچسپ مقامات دیکھنے نکلے۔ ڈبلن دیکر بس میں سفر مجھے اس لیے پسند ہے کہ اسکی دوسری منزل میں بیٹھ کر آپ آرام سےاردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ لہذا بس میں سوار ہوکر کوئی چالیس منٹ سفر کرکے ہم سینٹ این پارک پہنچ گئے۔ ڈبلن کے شمال میں واقع یہ پارک 240 ایکڑ کے رقبے پر مشتمل ڈبلن کا دوسرا بڑا پارک ہے۔ یہ راہنی اور کونٹرف کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہ آئرلینڈ کے مشہور شراب کشید کرنے والا بہت بڑا کاروباری شخص سر آرتھر گینس (1725-1803 ) کی اولاد کی ملکیت تھا۔ یہ زمین وراثت میں اس کے پوتے سر آرتھر ایڈورڈ گینس کے حصے میں ائی جسے بیرونیٹسی کا عہدہ بھی ملا تھا۔ وہ اور اسکی بیوی نے اسے آباد کیا۔ یہ زمین 500 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آرتھر ایڈورڈ گینس لاوارث مرگیا۔ اور یہ جاگیر اسکے بھانجےبشپ بنجامن کو وراثت میں ملی۔ اس نے 1939 میں اسے ڈبلن کارپوریشن کو 55 ہزار پونڈ میں فروخت کر ڈالی۔ کارپوریشن نے اس میں سے 200 ایکڑ پر مکانات تعمیر کرائی۔ کچھ حصہ پال کالج کو دیا گیا اور وسطی حصے کو پبلک پارک

آئرلینڈ یاترا۔۔۔12

سینٹ سٹیفن گرین پارک  یہ پارک  ڈبلن کے دوسرے پارکوں کے مقابلے میں چھوٹا  ہے تاہم جارجئین سٹی پارکوں میں سب سےبڑا ہے جس کا رقبہ 22 مربع ایکڑ ہے۔ یہ ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے پارک سے بھی بڑا ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے جس کے اندر ایک تالاب بھی ہے جس میں بطحوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ شہر کے مشہور بازار گریفٹن سٹریٹ اور سٹیفن گرین شاپنگ سنٹر سے متصل شہر کے مرکزی علاقے میں ہے۔ یہ پارک ڈبلن کے مشہور سیاسی اور کاروباری شخصیت لارڈ آرتھر ایڈورڈ گینس کی ملکیت تھا جسے اس نے ڈبلن کے شہریوں کے لیے وقف کیا تھا۔یہ اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے۔ 1916 کی بغاوت برائے آزادی کا مرکز تھا۔ یہاں جنگ آزادی کے ایک ہیرو مائیکل میلن نے آئرش سٹیزن ولنٹئیرز کے ایک دستے کو کمان کرتے ہوئے قبضہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ آئرلینڈ کی پہلی خاتون پارلیمنٹیرئین کاونٹس مرکوویکز بھی اس بغاوت میں شریک تھی۔اگرچہ ان کی آزادی کی وہ کوشش ناکام ہوگئی تھی تاہم آئرلینڈ کی آزادی کی تاریخ میں اس کا بڑا مقام ہے اور ایسٹر آپ رائزنگ ( Easter Up rising) کے نام سے مشہور ہے۔ اس بغاوت نے آئرلینڈ کی آزادی کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ لڑائی ایسٹر کے روز 24 اپ

آئرلینڈ یاترا۔۔۔11

نیچرل ہسٹری میوزیم ڈبلن نیشنل میوزیم آف آئرلینڈ کی یہ شاخ میرئین سٹریٹ ڈبلن 2 میں واقع ہے۔ اس عمارت کی تعمیر 1856 میں ہوئی تھی جب یہ میوزیم رائل ڈبلن سوسائٹی کے ہاتھ میں تھا۔ 1877 میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے اسے آئرش گورنمنٹ کی تحویل میں دیا گیا۔ یہاں خدا کی لاتعداد انواع و اقسام کی مخلوق جنہیں ہم جانور کا نام دیتے ہیں، stuffed حالت میں شوکیسوں میں نمائش کے لیے موجود ہیں۔ ان میں آبی اور بری دنیا سے تعلق رکھنے والے درندے، چرندے، پرندے اور رینگنے والے جانوروں کے کوئی بیس لاکھ سٹفڈ نمونے محفوظ ہیں جن میں سینکڑوں کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔ اس عجائب گھر کو مردہ چڑیا گھر (Dead Zoo)بھی پکارتے ہیں جو درست بھی لگتا ہے کیونکہ زندہ نام کے چند انسان  اس کی حفاظت و نظم  پر مامور ہیں یا ان کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ باقی سب مردے ہیں تاہم ان کو اس طرح preserve  کیا گیا ہے کہ ان پر زندوں کا گمان ہوتا ہے۔ شیر، چیتے، بھیڑیے اور بڑے بڑے سانپ دیکھنے میں سچ مچ زندہ لگتے ہیں۔ان کی طرف دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابھی مجھ پر حملہ آور ہوگا۔ بے ضرر پرندے اور چرندے  ہر ایک آپ کو دعوت نظارہ دیتے ہیں اور  خام

آئرلینڈ یاترا۔۔۔10

Trinity College Dunblin  ڈبلن شہر کے وسط میں آہنی جنگلے کے اندر 47 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی عمارت میں قائم یہ قدیم کالج  ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ملکہ کی منظوری سے وجود میں آیا تھا۔1592 میں اس کا قیام ڈبلن شہر کے باہر ہوا تھا۔ بعد میں کالج گرین پر اس کی عمارت بنی۔ یہ ڈبلن یونیورسٹی کی ماں ہے۔ ڈبلن یونیورسٹی کو آئرلینڈ کی قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا مقام حاصل ہے۔ یہ مغربی یورپ کے سات قدیم جامعات میں سے ایک ہے۔ اسے کالجیٹ یونیورسٹی آکسفورڈ اور کیمبرج کے نمونے پر ان کے معیار کے مطابق بنایا گیا تھا۔ سینٹ جان کالج کیمبرج اوراورئیل کالج آکسفورڈ اس کے سسٹر کالج ہیں۔ اس کی ڈگری کو آکسفورڈ اور کیمبرج کی مساوی حیثیت حاصل ہے اور یہ یونیورسٹیاں بغیر دوبارہ امتحان لیے ٹرینیٹی کالج ڈبلن یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر ۔ کو اپنی سند جاری کرنے کے پابند ہیں۔ بنیادی طور پر اس کالج کے قیام کا مقصد انگلستان کے شاہی خاندان کے وضع کردہ پروٹسٹنٹ مذہب کی ترویج و اشاعت تھا۔ اس لیے آئیندہ دو سو سالوں تک اس ادارے میں کیتھولکس کو داخلہ نہیں ملا تھا۔ جنوری 1793  سے یہاں کیتھولک فرقے کے طلبہ کو داخلہ لینے کی مشروط اجازت م

آئرلینڈ یاترا۔۔۔9

آئرلینڈ یاترا۔...9 کرائسٹ چرچ کیتھیڈرلChrist Church Cathedral  یہ گرجا گھر ڈبلن کیسل کے قریب لارڈ ایڈورڈ سٹریٹ کے آخر میں واقع ہے۔ پہلے پہل غالباً 1028 میں وائکنگ کے دور میں لکڑی کا بنایا گیا تھا۔ جب ڈبلن کا بادشاہ  شاہ ستریک  Citric Silkenbeard نے کلیسائے اسقف  روم کی زیارت کی اور گرجا تعمیر کرنے کی اجازت ملی تب اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ بارھویں صدی میں اس کی دوبارہ تعمیر پتھروں سے ہوئی۔ بعد ازاں اس میں اضافے ہوتے گئے۔ Dunan اس کا پہلا آرچ بشپ مقرر ہوا تھا۔ 1171 میں انگلستان کے شاہ ہینری دؤم  نے اس میں کرسمس سروس ادا کی ۔ 1539 میں ہینری ہشتم نے اسے کیتھڈرل کا درجہ دیا اور ڈین مقرر کیا۔ 1560 میں پہلی دفعہ یہاں انجیل کی تلاوت لاطینی کی جگہ انگریزی میں کی گئی۔ عہد وسطیٰ کے ڈبلن شہر میں دو گرجے یعنی کرائسٹ چرچ اور سینٹ پیٹرک چرچ تھے جن میں یہ سینئیر تھا۔ آج کل یہ یہاں کی سب سے بڑی عبادتگاہ ہے جہاں زائرین دور دور سے آتے ہیں۔اس کیتھڈرل کا بارھویں صدی کا بنا تہہ خانہ بھی ہے جس میں قدیم نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس گرجے کی ملکیت میں میں بہت بڑی جاگیر ہے۔ یہ صرف ڈبلن شہر کے اندر دس ہزار ا