آئرلینڈ یاترا۔۔۔12

سینٹ سٹیفن گرین پارک 
یہ پارک  ڈبلن کے دوسرے پارکوں کے مقابلے میں چھوٹا  ہے تاہم جارجئین سٹی پارکوں میں سب سےبڑا ہے جس کا رقبہ 22 مربع ایکڑ ہے۔ یہ ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے پارک سے بھی بڑا ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے جس کے اندر ایک تالاب بھی ہے جس میں بطحوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ شہر کے مشہور بازار گریفٹن سٹریٹ اور سٹیفن گرین شاپنگ سنٹر سے متصل شہر کے مرکزی علاقے میں ہے۔ یہ پارک ڈبلن کے مشہور سیاسی اور کاروباری شخصیت لارڈ آرتھر ایڈورڈ گینس کی ملکیت تھا جسے اس نے ڈبلن کے شہریوں کے لیے وقف کیا تھا۔یہ اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے۔ 1916 کی بغاوت برائے آزادی کا مرکز تھا۔ یہاں جنگ آزادی کے ایک ہیرو مائیکل میلن نے آئرش سٹیزن ولنٹئیرز کے ایک دستے کو کمان کرتے ہوئے قبضہ کیا تھا۔ ان کے ساتھ آئرلینڈ کی پہلی خاتون پارلیمنٹیرئین کاونٹس مرکوویکز بھی اس بغاوت میں شریک تھی۔اگرچہ ان کی آزادی کی وہ کوشش ناکام ہوگئی تھی تاہم آئرلینڈ کی آزادی کی تاریخ میں اس کا بڑا مقام ہے اور ایسٹر آپ رائزنگ ( Easter Up rising) کے نام سے مشہور ہے۔ اس بغاوت نے آئرلینڈ کی آزادی کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ لڑائی ایسٹر کے روز 24 اپریل کو شروع ہوکر 30 اپریل تک جاری رہی تھی جس میں کاونٹس مارکیوکز اور نرسوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ کاونٹس مارکیوکز کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے عورت ہونے کے ناتے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا تھا۔ 1917 میں اسے رہائی ملی۔
 سینٹ سٹیفن گرین پارک کے سامنے سڑک کے اس پار رائل کالج آف سرجنز کی تاریخی عمارت کھڑی ہے جس پر بھی بغاوتیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہاں کئی آئرش جوان شہید ہوئے تھے۔ مائیکل میلن کو بعد میں انگریزوں نے سزائے موت دی تھی۔ پھانسی پر چڑھنے سے پہلے اپنی بیوی کو خط لکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ  فوج اور پولیس کے کسی سپاہی کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ لہذا جو بھی اس لڑائی میں مارا گیا ہے ان سب کی روحوں کے سکون کے لیے دعا کریں۔ مائیکل ملین کی کارکردگی کی تفصیلی تاریخ بمع تصاویر پارک میں جگہہ جگہہ کتبوں کی صورت میں استادہ ہیں۔  آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کی خوشنودی کے لیے یہاں کبوتروں اور مرغابیوں کو دانہ کھلانے لوگ آتے رہتے ہیں۔ یہ پرندے اتنے انسان آشنا ہیں کہ آکر آپ کے بازوں اور کندھوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہادی خان نے ان پرندوں کو پکڑنے کی کوشش میں بڑا لطف اٹھایا۔
 
بھوکا درخت (Hungry tree)
آئرش بھی کمال کے لوگ ہیں۔ چنار کے درخت کو بھوکا درخت کا نام دے کر لوگوں کی تجسس کو بھڑکایا ہے۔ ہم بھی یہ نام سنتے ہی  بھاگم بھاگ اس درخت کو دیکھنے کنگز ان (King's Inn) کے گراؤنڈ پہنچ گئےتاکہ بھوکے درخت کا نظارہ کرسکیں۔کیا دیکھتے ہیں کہ باغ میں نصب لوہے کی بنچ کے قریب لگایا گیا چنار کا پودا بڑھتے بڑھتے جب اس بنچ تک پہنچا ہے تو بنچ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یوں بنچ کا پچھلا حصہ درخت کے تنے کے اندر گھس گیا ہے۔  آئندہ چند سالوں میں پوری بنچ تنے کے اندر سما جائے گی۔ اس میں درخت کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ لوہے کی مضبوط بنچ قصوروار ہے جو اپنی جگہہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر اس کا نام بے درد بنچ رکھ لیتے تو مناسب تھا۔ چنار کی عمر تقریباً سو اور ایک سو بیس سال بتائی جاتی ہے۔ جبکہ بنچ کی عمر اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ کنگزان کی عمارت کی بنیاد اگست 1800 میں رکھی گئی تھی۔ عمارت تیار ہونے کے بعد اس کے لان میں یہ بنچ نصب ہوئی ہوگی۔
کنگز ان کے نام سے مشہور اس تاریخی عمارت کے اندر
 The Honorable Society of King's Inns
  آئرلینڈ کا لا کالج قائم  ہے جس کی بنیاد  شاہ ہنری ہشتم کے اقتدار کے دوران 1541میں رکھی گئی تھی۔ یہ ٹرینیٹی کالج ڈبلن سے 42 سال پرانا پیشہ ورانہ تعلیمی ادارہ ہے۔ یہ عمارت  قدیم ہنریٹا سٹریٹ اور کانسٹیٹوشن ہلز ڈبلن ون  کے وسط میں قائم ہے۔ یہاں سے قانون کا اعلے امتحان بریسٹر ایٹ لا کیا جاتا ہے۔ اسی عمارت کے اندر آئرلینڈ کا لینڈ رجسٹری آفس بھی قائم ہے جس میں سترھویں صدی سے لے کرکے آج تک کے زمینوں کے خریدوفروخت اور رجسٹری کے ریکارڈ محفوظ ہیں۔ ان دو اہم اداروں کے اس عمارت میں موجود ہونے کےباوجود اس مقام کو لوگ ہنگری ٹری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔  King's Inns   کالج سے آئرلینڈ کی یہ مشہور سیاسی اور علمی شخصیات نے قانون کی اعلی ڈگریاں حاصل کی 
  تھیں۔
  ہنری گریٹن،وولف ٹون، ڈینئیل او کو نیل، ایڈورڈ گرسن، جان ریڈمونڈ، پیٹرک پیرس، جان اے کوسٹلو،نیک لینخ،چارلس ہاوگی، میری روبنسن اور جان بروٹن۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی