آئرلینڈ یاترا۔۔۔13

سینٹ این پارک st.Anne's Park
اگرچہ وسط جنوری کی سردی کافی ستا رہی تھی پھر بھی آئرلینڈ کی خوبصوت اور دلچسپ مقامات دیکھنے نکلے۔ ڈبلن دیکر بس میں سفر مجھے اس لیے پسند ہے کہ اسکی دوسری منزل میں بیٹھ کر آپ آرام سےاردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ لہذا بس میں سوار ہوکر کوئی چالیس منٹ سفر کرکے ہم سینٹ این پارک پہنچ گئے۔
ڈبلن کے شمال میں واقع یہ پارک 240 ایکڑ کے رقبے پر مشتمل ڈبلن کا دوسرا بڑا پارک ہے۔ یہ راہنی اور کونٹرف کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہ آئرلینڈ کے مشہور شراب کشید کرنے والا بہت بڑا کاروباری شخص سر آرتھر گینس(1725-1803) کی اولاد کی ملکیت تھا۔ یہ زمین وراثت میں اس کے پوتے سر آرتھر ایڈورڈ گینس کے حصے میں ائی جسے بیرونیٹسی کا عہدہ بھی ملا تھا۔ وہ اور اسکی بیوی نے اسے آباد کیا۔ یہ زمین 500 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آرتھر ایڈورڈ گینس لاوارث مرگیا۔ اور یہ جاگیر اسکے بھانجےبشپ بنجامن کو وراثت میں ملی۔ اس نے 1939 میں اسے ڈبلن کارپوریشن کو 55 ہزار پونڈ میں فروخت کر ڈالی۔ کارپوریشن نے اس میں سے 200 ایکڑ پر مکانات تعمیر کرائی۔ کچھ حصہ پال کالج کو دیا گیا اور وسطی حصے کو پبلک پارک بنا دیا۔ یہان گلف کورسز، ٹینس اور ساکر (soccer) گراؤنڈز, کیفی ٹیریا اور بچوں کے لیے تفریح کا اچھا خاصا انتظام ہے۔ اس کی ایک طرف ایک بڑا روز گارڈن ہے جس میں بے شمار اقسام کے گلاب کے پودے ہیں جن کی ابھی ابھی شاخ تراشی ہوئی ہے۔ کہیں کہیں چند ایک پھول بھی نظر آئے جوسرما برداشت کرگئے تھے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موسم بہار میں یہ جگہ بہت زیادہ ہی دلکش ہوگی۔ یہاں کے ہموار میدانوں میں پھیلی ہریالی گھاس جنوری کے مہینے میں بھی دل اور آنکھوں کو تروتازگی بخش رہی تھی اور جی کرتا تھا کہ یہاں گھومتے رہیں اور اللہ کی اس پیاری تخلیق کو دیکھتے رہیں۔ یہاں پکنیک کی غرض سے آنا مناسب تھا تاکہ پورا دن گزار سکتے۔ سرد موسم اور بارش سے بھیگی زمین زیادہ وقت گزارنے کی راہ میں حائل رہی۔ پارک۔ کے اردگرد پائن اور  شاہ بلوط کے دیوقامت درخت کھڑے ہیں جن میں ہر ایک کی اپنی دلآویزی ہے۔ اس بڑے باغ کی نگہداشت قابل تعریف ہے کہ آپ کو کہیں بھی کوئی کچرا نظر نہیں آئے گا۔ دراصل یہاں کے لوگ خود صفائی کا بہت خیال کرتے ہیں اس لیےسی ٹی کونسل کو اس کی صفائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

Malahide Castle
یہ محل ڈبلن سے 14 کلومیٹر  شمال کی طرف ملاہائیڈ گاؤں کے قریب واقع ہے۔ ڈبلن شہر سے ٹرم کی باقاعدہ سروس چلتی رہتی ہے اور ہم نےبھی ٹرم میں بیٹھ کر اس طرف چل پڑے۔ 260 ایکڑ رقبے کا نباتاتی باغ، جنگل اور سرسبز میدان مشتمل علاقہ اس چھوٹی سی محل کے چاروں طرف اسے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ایک طرف walled gardens ہیں جہاں کئی ایک  رنگا رنگ نازک پودوں کے شیش محل نرسریاں ہیں جن میں وکٹوریہ گلاس ہاؤس نمایاں ہے۔ 1185 میں یہ جاگیر اور ملاہائیڈ بندرگاہ انگریز نائٹ رچرڈ ٹالبوٹ  کو شاہ انگلستان ہنری دوم کی طرف سے ملی تھی۔ 791 سالوں تک ٹالبوٹ خاندان کی ملکیت رہی۔ Oliver Cromwell کے دور میں گیارہ سال، 1649 سے 1660 تک مائلز کاربٹ کے قبضے میں آئی۔ کرمویل کی وفات کے بعد مائلزکاربٹ کو پھانسی دی گئی اور یہ محل مع جاگیر پھر سے ٹالبوٹ خاندان کے قبضے میں آگئی۔ ساتویں پشت پر بیرون ٹالبوٹ کی موت کے بعد ان کی بہن روز ٹالبوٹ کو میراث میں ملی۔ اس نے 1975 میں  اس محل اور جاگیر کو آئرش سٹیٹ کے ہاتھ فروخت کردی۔
ملاہائیڈ محل چھوٹی سی عمارت ہے البتہ اس کے اندر کے کمروں کی آرائش و زیبائش شاہانہ انداز کی ہے اور اپنے اندر پوری تاریخ رکھتی ہے۔ قدیم بستر، لباس، بچوں پنگوڑے، کھلونے، برتن اور دوسرے گھریلو سامان یہاں محفوظ ہیں۔بوین کی لڑائی کے دوران ایک دن میں اس کے چودہ مکین قتل ہوئے تھے پھر بھی ٹالبوٹ خاندان مٹ نہیں پایا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے آخری سال 1918 میں اس کے گراؤنڈز کو بطور ایربیس استعمال میں لایا گیا تھا۔
یہاں انٹرنیشنل معیار کا کرکٹ گراؤنڈ بھی بن چکا  ہے جہاں پہلا ٹیسٹ میچ مئی 2018 میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے آئرش ٹیم کے خلاف کھیلا تھا۔ اس کے علاؤہ کئی گلف کورس، فٹبال گراؤنڈز اور ٹینس گراؤنڈز  یہاں موجود ہیں۔ نگاہ کی حد تک سرسبز میدان ہی میدان ہے۔  2007 سے کئی دفعہ بڑے بڑے انٹرنیشنل میوزیکل گروپ یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی