آئرلینڈ یاترا۔۔۔10

Trinity College Dunblin
 ڈبلن شہر کے وسط میں آہنی جنگلے کے اندر 47 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی عمارت میں قائم یہ قدیم کالج  ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ملکہ کی منظوری سے وجود میں آیا تھا۔1592 میں اس کا قیام ڈبلن شہر کے باہر ہوا تھا۔ بعد میں کالج گرین پر اس کی عمارت بنی۔ یہ ڈبلن یونیورسٹی کی ماں ہے۔ ڈبلن یونیورسٹی کو آئرلینڈ کی قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا مقام حاصل ہے۔ یہ مغربی یورپ کے سات قدیم جامعات میں سے ایک ہے۔ اسے کالجیٹ یونیورسٹی آکسفورڈ اور کیمبرج کے نمونے پر ان کے معیار کے مطابق بنایا گیا تھا۔ سینٹ جان کالج کیمبرج اوراورئیل کالج آکسفورڈ اس کے سسٹر کالج ہیں۔ اس کی ڈگری کو آکسفورڈ اور کیمبرج کی مساوی حیثیت حاصل ہے اور یہ یونیورسٹیاں بغیر دوبارہ امتحان لیے ٹرینیٹی کالج ڈبلن یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر ۔
کو اپنی سند جاری کرنے کے پابند ہیں۔ بنیادی طور پر اس کالج کے قیام کا مقصد انگلستان کے شاہی خاندان کے وضع کردہ پروٹسٹنٹ مذہب کی ترویج و اشاعت تھا۔ اس لیے آئیندہ دو سو سالوں تک اس ادارے میں کیتھولکس کو داخلہ نہیں ملا تھا۔ جنوری 1793  سے یہاں کیتھولک فرقے کے طلبہ کو داخلہ لینے کی مشروط اجازت مل گئی جس کے مطابق وہ پروفیسر شپ، فیلوشپ اور سکالر شپ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ 1873 میں یہ پابندیاں اٹھائی گئیں۔ اس کے باوجود کیتھولکس طلبہ کو یہ مسلہ درپیش رہا کہ وہ اپنے چرچ کی منظوری کے بغیر اس کالج میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے۔ طالبات کو داخلہ کی اجازت 1904 میں مل گئی تھی۔کالج کے اندر اقامت گاہیں، کھیل کے دو میدان اور چیپل بھی ہے۔
 ٹرینیٹی کالج ڈبلن میں رائج الوقت آرٹس اور سائنسی علوم کے تمام مضامین کی فیکلٹیز موجود ہیں۔ یہاں اس وقت بارہ ہزار انڈر گریجویٹ اور پانج ہزار پوسٹ گریجویٹ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ سالانہ ٹیوشن فیس 45 ہزار یورو ہے۔
 کالج کی لائبریری مغربی یورپ کی سب سے بڑی لائبریری ہے جہاں کتابوں کی تعداد ستر لاکھ یعنی سات میلین ہے۔ یہ کتابیں چھ سات عمارتوں میں رکھی گئی ہیں۔ ان میں سب سے قدیم اور بڑی عمارت لانگ روم کے نام سے مشہور ہے جو دو لاکھ قدیم ترین کتب اور مسودات کا گھر ہے۔ یہاں عہدنامہ جدید کی لاطینی منقش خطاطی The Book of Kells چار جلدوں میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔ یہ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی کی تخلیق ہے جو آئرلینڈ اور برطانیہ کے خانقاہوں میں ہوئی تھی۔ دی بک آف کلز کو آئرلینڈ میں ملک کا سب سے قیمتی مذہبی اور ثقافتی اثاثے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی کمرے میں آئرلینڈ کا قدیم ترین قومی آلہ موسیقی Harp بھی قابل دید چیز ہے۔ یہاں 1916 کے مشہور زمانہ تحریک آزادی جسے انگریز بغاوت کا نام دیتے ہیں، کا تحریری اعلامیہ بھی محفوظ ہے۔
 ڈبلن کالج یونیورسٹی کو ملک کی نامور شخصیات کی درسگاہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں چند اہم نام یہ ہیں۔ ادب میں نوبل پرائز ہولڈر سموئیل بیکٹ،نشہور فلاسفر جارج برکلڈینئیل بردمڈکے،فرنسس بریمبل، زیست دان، فلاسفر اور گلاسگو یونیورسٹی کے ریکٹر  ایڈمنٹن بروک ( جس نے گورنر بنگال وارن ہسٹنگ کے مظالم اور کرپشن کی تحقیقات کی تھی اور ہاؤس آف کامنز میں اس کی برطرفی کے لیے چارچ شیٹ پیش کیا تھا جس کا مضمون تھا۔The Article of Charge of High crimess and Misdemeanors against        Hastings، رتھ کیرنی، ویلیم کرنبل ( نوبل پرائز میڈیسن) اولیور گولڈسمتھ، ہنری گریٹن، ہیمفرے لویڈ (فززسٹ) میرئیڈ میگعاحر ( نوبل پیس پرائز) البرٹ جوزف میک کونیل، جوناتھان سووفٹ، وولف ٹون ، آسکر وائلڈ،  آئر لینڈ کے صدور ڈوگلاز ہائڈ، ایمون ڈی ولیرا، میری ربنسن اور میری مکالیوس۔
 
نیشنل میوزیم آف آرکیالوجی ڈبلن
یہ میوزیم کلڈیر سٹریٹ کے لینسٹر ہاؤس کے ایک حصے میں قائم ہے۔ اس کی ابتدا رائل ڈبلن سوسائٹی  نے 1782 میں کی تھی جب اس نے نتھانیل گالفرائڈ لسیکی سے یہ ذخیرہ خریدا تھا۔  بعد ازاں آئل آئرش اکیڈمی بھی اس  کی پارٹنر بنی۔ موجودہ عمارت 1815 میں تعمیر ہوئی جب رائیل ڈبلن سوسائٹی نے ڈیوک آف لینسٹر سے لینسٹر ہاؤس خرید لیا۔ اس عمارت کا ڈیزائن تھامس نیوین ڈین اور اس کا بیٹا تھامس مینلی ڈین نے تیار کیا تھا۔ 1890 میں یہ میوزیم آئرش سرکار کے حوالے ہوا۔ اس وقت اس تاریخی عمارت کے بڑے حصے میں آئرلینڈ کے صدر کا دفتر اور آئرش ایوان بالا اور ایوان زیرین کے ہاؤسز قائم ہیں۔
اس قومی عجائب گھر میں 7000 قبل از مسیح سے لے کر  سات، آٹھ سو عیسوی تک کے نوادرات جمع ہیں۔ جن میں گھریلو برتن، اسلحہ، پوشاک، کھیتی کے سامان، پتھروں پر کھدے نقش و نگار اور تحریریں، کاریگروں کے اوزار، خواتین کے زیورات، مصر ، قبرص اور روم سے لائی ہوئی ممیاں اور انسانی اعضاء اور مورتیں شامل ہیں۔
آرکیالوجی کے طلبہ کیلے بڑے تحقیقی مواد یہاں موجود ہیں۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی