آئرلینڈ یاترا۔۔۔9

آئرلینڈ یاترا۔...9
کرائسٹ چرچ کیتھیڈرلChrist Church Cathedral 
یہ گرجا گھر ڈبلن کیسل کے قریب لارڈ ایڈورڈ سٹریٹ کے آخر میں واقع ہے۔ پہلے پہل غالباً 1028 میں وائکنگ کے دور میں لکڑی کا بنایا گیا تھا۔ جب ڈبلن کا بادشاہ  شاہ ستریک  Citric Silkenbeard نے کلیسائے اسقف  روم کی زیارت کی اور گرجا تعمیر کرنے کی اجازت ملی تب اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ بارھویں صدی میں اس کی دوبارہ تعمیر پتھروں سے ہوئی۔ بعد ازاں اس میں اضافے ہوتے گئے۔ Dunan اس کا پہلا آرچ بشپ مقرر ہوا تھا۔
1171 میں انگلستان کے شاہ ہینری دؤم  نے اس میں کرسمس سروس ادا کی ۔ 1539 میں ہینری ہشتم نے اسے کیتھڈرل کا درجہ دیا اور ڈین مقرر کیا۔ 1560 میں پہلی دفعہ یہاں انجیل کی تلاوت لاطینی کی جگہ انگریزی میں کی گئی۔
عہد وسطیٰ کے ڈبلن شہر میں دو گرجے یعنی کرائسٹ چرچ اور سینٹ پیٹرک چرچ تھے جن میں یہ سینئیر تھا۔ آج کل یہ یہاں کی سب سے بڑی عبادتگاہ ہے جہاں زائرین دور دور سے آتے ہیں۔اس کیتھڈرل کا بارھویں صدی کا بنا تہہ خانہ بھی ہے جس میں قدیم نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
اس گرجے کی ملکیت میں میں بہت بڑی جاگیر ہے۔ یہ صرف ڈبلن شہر کے اندر دس ہزار ایکڑ زمین کا مالک ہے۔
سرکاری طور پر اس کیتھڈرل کو چرچ آف آئرلینڈ اور رومن کیتھولک آرچ بشپس آف ڈبلن کی سیٹ ہونے کا دعویٰ ہے ۔ در حقیقت ایسا نہیں بلکہ یہ آرچ بشپ آف آئرلینڈ کا کیتھڈرل ہے۔ رومن کیتھولک سینٹ میری کو بطور قائم مقام کیتھڈرل استعمال کرتے ہیں۔
کرائسٹ چرچ کیتھیڈرل کی عمارت بہت ہی شاندار اور دلکش ہے۔ اس کی اندرونی زیبائش بھی بہت خوبصورت ہے۔

سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل St.Patrick Cathedral
یہ ڈبلن شہر میں دوسرے نمبر کا قدیم ترین گرجا ہے۔ اس کی عبادتگاہ سب سے بڑی اور چھت بے انتہا اونچی ہے۔ اس کی اولین تعمیر 1191 میں ہوئی تھی۔ اسی مقام کے  ایک کنواں پر بانجویں صدی میں سینٹ پیٹرک مذہب بدلنے والوں کو عیسائی بنانے کی رسم ( Baptism ) ادا کیا کرتےتھے۔ یوں یہ جگہہ عرصہ 1500 سالوں سے مسیحیوں کے لیے مذہبی تقدس رکھتی ہے اور اہم ترین زیارت گاہ ہے۔  اسے کیتھڈرل کا مقام کب ملا یہ معلوم نہیں تاہم ڈبلن شہر میں دو دو کیتھیڈرل کا وجود ایک انہونی بات تھی اور یہ اگلی ایک صدی تک کلیسائی اقتدار کے لحاظ سے تنازعے کا باعث بنا رہا کہ کونسا کلیسا مقتدر ہے۔ سن 1300 میں ایک معاہدے کے ذریعے اس مسلے کو وقتی طور پر حل کیا گیا جس میں دونوں کلیساؤں کو اشتراک کے ساتھ مذہبی فرائض انجام دینے کا پابند بنایا گیا۔ اس کےباوجود سپرمیسی کا جھگڑا جاری رہا یہاں تک کہ 1871 میں اسے کیتھڈرل آف آئرلینڈ کا مقام دیا گیا اور کرائسٹ چرچ کیتھڈرل ڈبلن اور گردو نواح کے کیتھڈرل کی حیثیت پائی۔

شاہ انگلستان ہنری ہشتم اور اس کی اولاد کے  ادوار اس کیتھیڈرل کے لیے پراشوب رہے تھے۔ جب پوپ کلیمنٹ ہفتم نے ہنری ہشتم اور ملکہ کیتھرین آف اروگان کا ازدواجی بندھن منسوخ کرنے سے انکار کیا  تو ہنری ہشتم نے رومن کیتھولک  مذہبی قیادت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور خود چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بن بیٹھا۔ اسے کے بعد جو بادشاہ تخت کا وارث بنا اپنی مرضی کا آرچ بشپ مقرر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ  کیتھڈرل کا نام اور اس کی حیثیت بھی بدلتی رہی۔  یورپی اصلاح مذہب Reformation of Religion  کے دوران یہ کیتھڈرل پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کا تختہ مشق رہا۔ یہاں تک کہ کرم ویل کے فتح ڈبلن کے زمانے میں اس  چرچ کی بڑی بے احترامی کی گئی جب اس کے مرکزی حصے کو لارڈ مئیر کے گھوڑوں کے لیے اصطبل  بنایا گیا تھا۔

سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل کو آئرلینڈ کے دو صدور ڈوگلاز ہائیڈ (1949) اور ارسکین چلڈرز ( 1974) کی تجہیز وتکفین کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسی طرح جوناتھن سووفٹ  جیسے مشہور زمانہ مذہبی سکالرز اور رائٹر  ( گلیورس ٹریولز کے مصنف) 1713 سے 1745 تک اس کیتھڈرل کے ڈین رہے اور اسکی قبر بھی اس کے اندر ہے۔ سینٹ پیٹرک کیتھڈرل کے اندر بہت سی اہم شخصیات کے مجسمے بھی استادہ ہیں۔

بوٹینیکل گارڈن ڈبلن Botenical  Garden
ڈبلن شہر کے اندر قابل دید اور دلکش مقامات میں ایک اس کا نباتاتی باغ ہے۔اسکے اندر داخل ہوتے ہی دل خوش ہوتا ہے۔ مخملی سبز گھاس ایک طرف آپ کو ہم نشینی کی دعوت دیتی ہے تو دوسری طرف سینکڑوں بلندو پست قد نوع نوع کے درخت آپ کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچتے  رہتے ہیں۔ اس باغ کے اندر بہتی ہوئی نہر آپ کو چترال کی یاد دلاتی ہے تو تالابوں میں تیرنے والے مرغابیاں آپ کو بلچ اور بمباغ کا نقشہ پیش کرتی  ہیں۔ تالاب کی طرف قدم اٹھائے تو مرغابیاں تالاب سےباہر نکل کر ہمارے استقبال کو آئیں۔ جب انہوں نے ہمیں خالی ہاتھ تماش بین دیکھا تو مایوس ہوکر واپس اپنے پونڈ میں داخل ہوکر رزق کی تلاش میں غوطہ لگانے لگیں۔ان کا خیال تھا کہ یہ سیاح لوگ ہمیں کچھ کھلائیں گے لیکن ہم تہی دست تھے۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہم میں اور آئرش لوگوں میں کتنا فرق ہے؟
اس نباتاتی باغ میں سینکڑوں اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ دیودار، برچ، سرو، بید  کے علاؤہ باقی کی شناخت مجھ جیسے نباتاتی علم سے ناواقف کے لیے آسان نہیں تھی۔ اس لیے مشاہدہ اور فوٹو گرافی پر اکتفا کرنا مناسب سمجھا۔ جاری یے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی