اردو کے صاحب دیوان فرنگی شعراء

اردو کے صاحب دیوان فرنگی شعراء
ہمیں اپنے سابقہ فرنگی آقاؤں سے یہ شکایت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنا غلام بنایا اور ہماری تہذیب کا جنازہ نکال دیا۔ اپنی زبان اور کلچر ہم پر مسلط کیا۔ بر صغیر پاک و ہند سے جاتے جاتے  بھی اپنے پیچھے ایسے مقامی وارث چھوڑ گئے جو آج تک مغرب کی غلامی پر نازاں ہیں۔ آج بھی ان کی نقل اتارتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور ملک کے اندر ان کا نظام تعلیم و تربیت اور حکمرانی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کی درجنوں خرابیوں کے باوجود ان کی چند ایک خوبیاں بھی تھیں۔ جن میں معاشی،علمی اور اقتصادی ترقی میں ان کا کردار قابل قدر ہے۔ اردو اور ہندی زبان و ادب کے فروع میں انہوں بہت بڑا کام کیا ہے۔ زبان و ادب اور ادیبوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں انہوں نے پیش رو کا کردار ادا کیا ہے۔ میں آج تک اس بات سے واقف نہیں تھا کہ فرنگیوں میں بھی کوئی اردو زبان کا شاعر گزرا ہے۔ خدا بھلا کرے رضا عابدی صاحب کا  کہ ان کی تصنیف " کتابیں اپنے آباء کی " اور محترم شیر علی برچہ ہنزائی کا کہ انہوں نے اس نایاب کتاب کو مجھے تحفہ کیا تھا۔

معروف صحافی، محقق اور ادیب رضا علی عابدی کے مطابق سو سے زیادہ انگریز شعراء اور لکھاریوں کی اردو تخلیقات انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہیں ۔ ان میں سے تین صاحب دیوان شعراء کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب" کتابیں اپنے آباء کی" میں کیا ہے۔ جن کا مختصر تعارف نذر قارئین کرتا ہوں۔
 جارج پیش شور: جارج پیش نام اور تخلص شور تھا۔ انہوں نے چھ دیوان لکھے تھے جن میں سے  دو دیوان " دیوان شور" کے نام سے انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں ۔ ان کی غزل کے چند اشعار بہ طور نمونہ  درج کرتا ہوں۔
دل عکسِ چشم سے مرا پیمانہ ہوگیا
شیشہ تھا آگے، اب تو یہ میخانہ ہو گیا
آباد ہے خیال بتاں سے دل خراب
افسوس تھا جو کعبہ بتخانہ ہوگیا
سودا ہوا جب سے تری زلف کا مجھے
دل چاک چاک ہوکے مرا شانہ ہو گیا

 جوزف مینول:  جوزف مینول کا تخلص جوزف ہی تھا۔ ان کا دیوان "غنچہ خاطر" معروف بہ دیوان جوزف" انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہے۔ نمونہ کلام:
فراق یار میں یہ نیم جاں تن سے نکل جائے
تو بس ارمان تیرے وصل کا من سے نکل جائے
خراماں دیکھ کر تجھ کو روش پر رشک و حیرت سے
صبا گلشن کے اندر آکے پھر سن سے نکل جائے
نیند سے اب جگا دیا کس نے
 خواب غفلت اڑا دیا کس نے
چپکے چپکے تھا دل میں عشق نہاں
 اس کا پردہ اٹھا دیا کس نے
 اب تو جوزف تعجب آتا ہے
 تم کو شاعر بنا دیا کس نے

 جوزف نیبسلی: ان کا تخلص فنا تھا اور اس کے دیوان کا نام "دیوان فنا" ہے ۔فنا 24 سال کی عمر میں فوت ہوا تھا۔ رضا علی عابدی کہتے ہیں کہ "فنا جو اردو شاعری کی بلندیوں کو چھونے والا تھا کہ موت نے آن دبوچا"۔ کہتے ہیں کہ انہیں عشق بتاں نے کھا لیا۔ وہ کسی ہندوستانی حسینہ کے عشق میں گھٹ گھٹ کر جان دی تھی۔ الور کی ریاست میں  نوابی فوج کا سپہ سالار تھا۔ ان کی وفات کے بعد اس کے بہنوئی جارج پیش شور نے ان کے دیوان کو چھپوایا تھا۔ اس کے دیوان کا دیباچہ شور نے خود لکھا تھا جو مقفی اور مسجع  نثر کا اعلےٰ نمونہ ہے۔ بطور نمونہ رضا عابدی صاحب نے نقل کی ہے، "میرے ایک برادر،یہ جان برابر، حسین مہ جبین،رشک غلمان و حور، نشہء خباب میں چور، مجموعی خوبی ہائے بیکراں، خوش وضع شیرین زباں، کلیم ککام، جوزف بینسلی نام۔۔۔۔۔"
 نمونہء کلام: 
 کوئے دشمن میں بھی باز آئے نہ فریاد سے ہم
 راہ رکھتے ہی گئےاس ستم ایجاد سے ہم
 کیا ہی دیوانے ہوئے ہیں جو فنا کہتے ہیں
 داد پائیں گے کبھی تو بت بے داد سے ہم
 
آئے کیوں کر بھلا زوال ہمیں
بے کمالی میں ہے کمال ہمیں
موت آئی دلا یہ خوب ہوا
ہوگیا ہجر میں وصال ہمیں
ان کا یاں تک فنا نہ آنے کا
لے گیا گور میں ملال ہمیں
(بہ شکریہ اور حوالہء "کتابیں اپنے آباء کی" از رضا علی عابدی ، سنگ میل پبلکیشنز، لاہور)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی