چیغیچ اور پندار

چیغیچ" اور "پندار"
 کھو  یعنی چترالی ثقافت میں کئی خوبصورت رسمیں تھیں جو اب ناپید ہوچکی ہیں۔ ہم  نے بدیشی معاشرتی رسوم و رواج کو پسند کرنا شروع کیا۔ اپنی روایات دقیانوسی لگنے لگیں۔ اس لیے ایک ایک کرکےانہیں اپنی ثقافت کے خزانے سے نکال پھینک دینے  کو اپنی عزت میں اضافے کا باعث سمجھنے لگے۔  ہم نے دوسروں کے طور طریقے اپنانے میں  ایکدوسرےسے بازی لے جانے پھرتی دکھائی اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ ثقافت اثر اور تغیر پذیر ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ تغیر میں زندگی ہے اور جمود مردگی ہے۔ آج اگر سو سال پہلے کا گزرا ہوا آدمی زندہ ہوجائے تو وہ حیران ووپریشان ہوگا کہ وہ ان اجنبی لوگوں اور اجنبی معاشرے  میں کیسے آیا؟  اسے نہ ہماری کھوار سمجھ آئیگی اور نہ رہن سہن اور رسم و رواج جانے پہچانے لگیں گے۔۔مثال کے طور پر ہم شادی بیاہ کے رسم و رواج کو لیں۔ ۔  اس میں سوائے چند چھوٹی موٹی رسموں کے تمام طور طریقے بدل چکے ہیں۔ منگنی سے لے کر دلہن کی رخصتی تک اور  دلہن کے ملبوسات تک کوئی چیز بھی قدیم روایات سے میل نہیں  کھاتی۔ یہاں تک کہ چترالی " سور بند" کا ڈیزائین بھی تاج نما بن گیا ہے۔ جن عروسی ملبوسات کا نام ہماری بچیاں لے رہی ہیں اور خود خریدنے جاتی ہیں۔ ان کی ہمیں قطعی سمجھ  نہیں۔۔
جو روایات اس وقت تھوڑی بدلی حالت میں زندہ ہیں ان میں چیغیچ اور پندار ہیں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ آج سے نصف صدی پہلے جب کسی لڑکی کی بیاہ  کی تاریخ مقرر ہوجایا کرتی تو وہ  اپنی بہنوں اور سہیلیوں کی ہمراہ گاوں کےگھر گھر جایا کرتی۔ دلہن کے اس دورے کے دو مقاصد ہوا کرتے۔ ایک گاوں کی ماں بہنوں کو وداع کہنا اور دوسرا ان سے تحفہ وصولنا ہوتا تھاجو چھوٹی موٹی چیزوں پر مشتمل ہوتا اور  حسب حیثیت دیا جاتا نیز قریبی رشتے دار لازمی طور پر اس شادی میں مدعو ہوا کرتے۔ وہ بھی تحفے لے کر آتے۔ ان تحائف کا نام " چیغیچ" تھا۔ آج کے دور میں دلہن کے گاوں گھومنے کی بجائے گاوں کی خواتین کی دلہن کے گھر دعوت دی جاتی ہے۔  اس دعوت طعام میں شریک ہونے والی خواتین دلہن کے لیے تحفے لے آتے ہیں جو عام طور پر   بناوسنگار کا سامان،جوڑے، زنانہ ٹوپیاں، بسترے، کھانے پینے کے برتن وغیرہ کی شکل میں لائی جاتی ہیں۔ عزیز رشتے دار ٹی وی  سیٹ، فریج، سلائی مشین،  واشنگ مشین جیسی ضرورت کی چیزیں تحفہ کرتے ہیں۔ یوں دلہن کے لیے بہت سارا سامان جمع ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف باپ یا بھائی  پر بیٹی / بہن کی رخصتی کا بوجھ ہکا ہوجاتا ہے بلکہ آپس میں پیار محبت کی تجدید بھی ہوجاتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کھو ثقافت میں دلہن کے ساتھ جہیز دینےکا روج نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے البتہ ہر باپ اور بھائی اپنی  بیٹی اور بہن کو اس کی روزمرہ ضرورت کی ہر وہ چیز دینے کی کوشش کرتا ہے جس کی استطاعت ہو۔  اس زمانے میں دلہے کا باپ اپنی مرضی سے نقد رقم بھی دلہن کے گھر پہنچاتا ہے۔ بعض لالچی یا غریب والدین دلہا والوں سے نقد رقم کا تقاضا بھی کرتے ہیں جس نےہماری سیدھی سادھی ثقافت کو داغدار کردیا ہے۔   اج کی دلہن بھی سٹیٹس کونشئیس کی بیماری کا شکار ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ سامان اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہے تاکہ اپنے سسرالیوں کو زیادہ سے زیادہ ایمپریس کرسکے۔ اس کی خواہش کو اس کے ماں باپ  اور عزیزو اقارب رد نہیں کرسکتے۔ اس لیے ان پر مالی بوجھ بڑ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں گاوں والوں اور عزیزوں کی طرف سے ملنے والے تحفے بڑی مدد ثابت ہوتے ہیں۔
 اسی طرح دلہا کو بھی اس کی شادی کے موقعے پر تحفے ملتے ہیں جو نقد رقم، گھی، پنیر، چاول،مینڈھے، بکرے، بیل وغیرہ کی شکل میں گاؤں والے  دلہا کی جامہ پوشی کی دعوت میں شرکت کرتے وقت لاتےہیں۔ رشتے دار بھی اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق  تحفےساتھ  لاتے ہیں۔ دلہا کے گھر لائے جانے والے یہ تحفے " پندار" (پ پر زبر، ن ساکن)لاتے ہیں۔ اگرچہ ایک صاحب حیثیت آدمی کے لیے بیٹی اور بیٹے کی شادی کے اخراجات  کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن ایک غریب آدمی ہر بڑا بوجھ ہوتے ہیں جو گاوں والوں اور رشتے داروں کے چیغیچ اور پندار کی بدولت کافی تک ہلکاہوجاتا ہے۔ پندار اس پڑوسی یا رشتے دار جو بھی دیا جاتا ہے جس نے نیا مکان بنایا ہو اور اس میں منتقل ہو رہا ہو۔ پہلے  زمانے میں گھوڑے،  بندوق ، زمین خریدنے والے کو بھی اسی  چیز سے تعلق رکھنے والی چیز پندار کی جاتی تھی۔ ۔
کھو ثقافت کی یہ دونوں روایات آپس کی میل محبت اور امداد باہمی کی عمدہ مثالیں ہیں جنہیں زندہ رکھنا بہت ضروری ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی