امہ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام فری آئی کیمپ

  جیسا کہ پہلی تحریر میں بتایا تھا کہ رات گیارہ بجے تک ڈاکٹروں نے  آنکھوں کا اپریشن جاری رکھا۔ اس وقت تک  کوئی 13 گھنٹے کام کرچکے تھے۔ رات گیارہ  بجے تک جب بچی گھر واپس نہیں آئی تو مجھے تشویش ہوئَی اور بذات خود  ان کا حال پوچھنے  ٹی ایچ کیو ہسپتال بونی کےآپریشن تھیٹر پہنچا۔ دیکھا کہ آئی سرجن ڈاکٹر زاہد اور ان کی سرجیکل ٹیم مصروف کار تھی۔آئی سرجن کی اس مشقت کوشی کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے  چہرے پر انتہائی تھکاوٹ صاف نظر آرہی تھی جبکہ ان کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔ میں نے سوچا  کہ دنیا میں اب بھی مسیحا موجود ہیں۔ واقعی مسیحا ایسا ہوتا ہے جو اپنا آرام و سکون، اپنی نیند اور اپنی جسمانی خواہشات  دکھی انسانیت کے لیے قربان کردے۔   یہاں سینکڑوں میل دور سے ضعیف العمر مریض آئے ہوئے تھے۔ اس لیے ڈاکٹر نے آپریشن جاری رکھا تھا۔ اس طویل اور مسلسل کام  کی وجہ سےسرجن  عمر زاہد خٹک کی پیٹھ شاید بری طرح دکھ رہی تھی اس لیے ٹیم کی منتظم لیڈی ڈاکٹر افشان وقفے وقفے سے ان کی پیٹھ دبائے جارہی تھی۔ میں نے دکھی انسانیت کے ان خادموں کو دل کی گہرایوں سے دعائیں دیں اور آفرین کہا۔  مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر زہرہ ولی خان گاٴینیکالوجسٹ اینڈ چلڈرن سپیشلسٹ اور او ٹی ٹیکنیشن مسٹرامین  رضاکارانہ طور پر ان کو فیسلیٹیٹ  کر رہے تھے۔  ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کے مسٹر طفیل او ٹی ٹیکنیشن اور مس بانو آئی ٹیکنیشن ان کی معاونت کر رہے تھے۔  12 بجے رات میں وہاں سے نکلا اور مریضوں کے وارڈ میں مریضوں کا حال پوچھنے  گیا تو وہاں مریضوں کا کوئَی پرسان حال نہیں تھا۔ نہ وارڈ بوائی اور نہ کوئی نرس نظر آئی۔  آنکھوں کا علاج کروانے آئے ہوئے یہ مریض سارے کے سارے ستر سال سے اوپر کی عمر کے تھے۔ ان میں کئی ایسے بھی تھے جن کے ساتھ کوئی آٹنڈنڈ نہیں تھا۔
 رات تین بجے ڈاکٹر زہرہ ولی خان گھر آئی تو پتہ چلا کہ  امہ ویلفیر ٹرسٹ کی میڈیکل ٹیم  نے رات ڈیڑھ بجے تک  اپریشن کا کام جاری رکھا تھا۔ اس کے بعد رات کا کھانا کھایا اور تین بجے یہ لوگ آرام کرنے گئے۔  اسی دن ایک اکیلے آئی سرجن نے 97 مریضوں کا آپریشن کیا تھا۔ اور کم و بیش ایک ہزار کا کلینکل اگزامنیشن ہوا تھا۔ آللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔

 ہاں اس دن کے چار بجے ڈپٹی کمشنر چترال، ایڈیشنل  ڈپٹی کمشنر چترال اور تحصیلدار مستوج نے کیمپ کا دورہ کیا اور راقم الحروف کو بھی چند منٹ ان کے ساتھ بیٹھنے  اور تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ ڈی سی چترال ایک فعال اور متحرک آفیسر ہیں۔ انہوں نے چارج سنبھالتے ہی چترال کے دور دراز وادیوں کا دورہ کیا تھا۔  دورہ یارخون اور بروغل  کے موقع پر پاور یارخون میں  منی ھائیڈرو پاور پروجیکٹ کو بھی دیکھا ۔ وہاں پر ہماری ان سے پہلی ملاقات ہوئَی تھی اور میں نے انہیں سنجیدہ اور ذمے دار افیسر کے طور پر جج کیا تھا۔  یہاں اس  فری آئی کیمپ کا ان کا دورہ بہت اچھا اور برموقع تھا۔ انہوں نے ہسپتال کی عمارت کی خستہ حالی ، میڈیکل سٹاف  اور مینئیل عملہ کی شدید کمی اور ہسپتال کے عملہ اور مریضوں کو درپیش سارے مسائل کا بہ نظر خود جائزہ لیا۔ ان مسائَل کو پہلی مرتبہ  پچھلے سال انہی دنوں آن لائین اخبار چترال ٹوڈے کے ذریعے میں نے اجاگر کیا تھا۔ ان پر کس حد تک کسی ذمے صاحب نے عمل کیا اس  کا بیاں اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیئے۔

 کیمپنگ کے دوسرے دن ڈاکٹروں نے کوئی نو سو مریضوں کا معائینہ کیا۔ ان میں سے 57 کا آپریشن ہوا۔  دو دن کا پروگرام تین دنوں تک چلانا پڑا تاکہ کوئی مجبوردار محروم نہ رہے۔ تیسرے دن واریجون موڑکھو میں انہوں نے کلینک کیا اور سرجن نے بونی میں سرجری جاری رکھی اور کوئی42 نابیناوٴں کا آپریشن ہوا۔ سرجری کی پٹی کھلنے کے بعد جس جس مریض سے میری ملاقات ہوئی وہ دعاٴئیں  دیے جا رہا تھا کہ اس کی بینائی لوٹ آئی ہے۔ مجھے خود بھی یقین تھا ایسے انسان دوست اور خوش
اخلاق ڈاکٹروں کے ہاتھوں  میں شفا نہ ہو  یہ ہو ہی نہیں سکتا۔  بونی کی اس فری آئی کیمپ میں مجموعی طور پر کل ڈھائی ہزار مریضوں کا معائنہ ہوا اور 196 کی سرجری ہوئی اور انٹرا اوکیولر کیٹیریکٹ لینس لگائے گئے۔ بتایا گیا کہ چترال کیمپ میں 170 افراد کا آپریشن ہوا تھا۔۔

صحت کی سہولیات مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اگر کوئی این جی او  یا سول سوسائیٹی کا کوئی گروپ صحت کے شعبے میں مدد فراہم پہنچا رہا ہو تو عوام اور متعلقہ محکمے کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان رضاکارانہ خدمتگاروں کے لیے فیسلیٹیٹر کا کردار ادا کریں۔ ان کے لیے بہتر سے بہتر ممکنہ  سہولیات بہم پہنچانے کے لیے با ضابطہ کاروائی کرے۔ اس آئی کیمپ کے انعقاد کے دوران ضلعی محکمہ صحت کا کوئی  کردار نظر نہیں آیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی اتھارائزڈ اہل کار موقع پر موجود نہیں تھا۔  ہسپتال کے عملہ میں سے ڈاکٹر زہرہ ولی خان، ڈاکٹر عمران، او ٹی ٹیکنیشن آمین، اور دوسرے نوکروں میں ولی خان ، بشیراور نایاب خان نے اپنی ہسپتال ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ اس مہمان میڈیکل  ٹیم کی اعانت کی۔ میری دو ولنٹئیر بچیوں ڈاکٹر رئیسہ خان اسیر ڈی فرمیسی اور سدیدہ خونزا ایم ایس سی نے دو دن او ٹی میں مریضوں اور ڈاکٹر کی  رضاکارانہ مدد کی۔ 
 چترال خاص سے ایک جوان رضاکار جو ٹیم کے ہمراہ تھا مجھے بتایا کہ آپریشن تھیٹر میں منوں مٹی پڑی تھی جسے  ان لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔  بجلی چلی جانے کی صورت میں او ٹی میں جنریٹرکا کنکشن نہیں تھا۔ جو رہائشگاہ انہیں دی گئی تھی اس میں کوئی بلب نہیں تھا۔ یہ ساری کمی آئی کیمپ کے منتظمین نے خود پوری کی تھی جو افسوس ناک ہے اور ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔ ہسپتال کے ملازم افراد اپنے عزیزوں کو پہلا نمبر دینے کی غرض سے آپریشن تھیٹر میں بلا روک ٹوک گھسا کرتے تھے ۔ مریضوں کو  او ٹی کی انتظار گاہ میں منیج کرنے والوں نے یہ بھی بتایا کہ مریض انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ جو شورشرابا اور پریشانی پیدا کر رہے تھے وہ ان کے اٹینڈنڈس تھے۔ میں نے کہا، " یہ ہے فرق بزرگ چترالیوں اور جوان چترالیوں میں"۔  بونی گاوں کے مہمان نواز حضرات نے بھی کسی قسم کی مہمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ البتہ بونی کے موسیقی گروپ نے محکم الدین آف ڑوماڑی کی قیادت میں  حیدری گیسٹ ہاوس میں مہمانوں کو چترالی موسیقی کی محفل سے محظوظ ضرور کیا۔ جس کے لیے ان کو شاباش کہتا ہوں۔
  ضلعی انتظامیہ نے اپنا فرض نبھایا اور ڈی سی چترال نے اے ڈی سی کو ساتھ لیے کیمپ کا دورہ کیا۔ میڈیکل ٹیم اور ٹیم لیڈر شپ کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا۔ ہسپتال کی حالت دیکھی۔ اگلے دن اتوار کو میں نے تحصیلدار مستوج مسٹر رب نواز کو ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود پایا جو قابل ستائیش ہے۔۔

آخر میں اگر ٹیم کے اہل کاروں آرگنائزر ڈاکٹر افشان، کیمپ منیجر مسٹرافتخار احمد، کیمپ کوارڈنیٹر مسٹر عرفان اللہ، آئی سرجن  ڈاکٹرعمرزاہد خٹک اور دوسرے خدمت گاروں یعنی  ٹیکنشینز،ڈرائیوروں، باورچی وغیرہ کا شکریہ ادا نہ کروں تو احسان فراموشی ہوگی۔ کسی بھی تنظیم کے اندر مختلف شعبوں میں خدمت کرنے والوں کی اجتماعی  بہترکارکردگی یعنی  گُڈ ٹیم ورک اس تنظیم یا ٹیم کی کارکردگی کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ اور
اسی طرح  اس ٹیم کے کسی ایک رکن کی کمزور کارکردگی ٹیم کی پرفارمنس پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ اس  کامیاب آئی کیمپ کے انعقاد پراس ٹیم کے ہر ایک  فرد کا کردار قابل ستائیش ہے۔
  میں اپنے علاقے کی سول سوسائیٹیوں اور شفا پانے والے آنکھ کے عارضہ میں مبتلا افراد  کی طرف  سےامہ ویلفیر ٹرسٹ نوشہرہ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ کئی ایک بزرگوں نے ان کی طرف سے الفاظ تشکر پیش کرنے کو کہا بھی تھا جو امانت تھی۔  یہ گزارش بھی ساتھ کرتا چلوں کہ امہ ویلفیر ٹرسٹ چترال میں ایک ڈایالسز سنٹر قائم کرکے یہاں انتہائی مجبور مریضوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائے کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی ایک نوجواں کڈنی فیلئیر کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے ہیں اور یہ مہلک بیماری بڑھتی جارہی ہے۔ نیز اگلے سالوں میں بھی  چترال کے ان دور افتادہ وادیوں میں فری آئی کیمپس کا انعاد جاری رکھ کر نا بینا غریب لوگوں کی بینائی واپس دلانے میں اپنا یہ عظیم کردار ادا کرتا رہے۔

شیرولی خان اسیر پرنسپل/ ڈی ای او ریٹائرڈ
ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے پی کے
سوشل ورکر
 swkhanaseer.blogspot.com
Email waliaseer@yahoo.com

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی