چوری کا کھوج

میں نے اپنے بچپن کی چوری کا واقعہ  " اسیرو زندگی۔۔۔12" (کھوار زبان میں)میں بیان  کیا تھا جس کا کھوج لگانا دور کی بات چوری کی واردات کا  بھی کسی کو پتہ نہ چلا تھا لیکن ایک اور بڑی چوری کا کھوج اسی ذہین بںندے نے لگایا تھا جس کے یہاں سے میں نے  زندگی کی پہلی چوری کی تھی۔ اپنی اس پہلی چوری کا واقعہ میں نے اپنے ایک کالم "معصوم چور" کے عنوان  سے عرصہ پہلے لکھا تھا جو شاید چترال ٹوڈے کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ آج جس چوری کے کھوج کی بات کرنے جارہا ہوں یہ واقعہ "بانگ گول"کے "گراگار" نام کی غاری میں پیش آیا تھا اور میرے والد محترم لغل  خان لال المعروف چارغیریو لال( اللہ انہیں معفرت نصیب کرے) نے اس کا کھوج لگایا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ سٹوری سناوں، علاقے  اور اس مضمون میں مذکور ہونے  والےکھوار ناموں اور اصطلاحات کا مختصر تعارف ہوجائے تو غیر چترالی قاری کو سمجھنے  میں آسانی ہوگی۔

گاوں بانگ چترال کی وادئ یارخون کے قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے جو چترال سے 155 کلومیٹر، مستوج سے  45 اور یارخون کے پہلے گاوں  بریپ سے 20 کلومیٹر شمال مشرق میں دریا یارخون کی دائین طرف واقع ہے۔ اس گاوں  میں موجود قدیم زمانے کی نامعلوم قبریں اور  اخروٹ کے قدیم درخت اس کی کہنہ سنی کے گواہ ہیں۔ اس پرانے گاوں کے ساتھ وابستہ ایک پرانی دیو مالائی قسم کی  کہانی بھی ہے جسے پھر کبھی لکھوں گا۔ یہ گاؤں وادی کے دوسرے گاونوں کی نسبت ترقی یافتہ ہے جہاں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول ( مردانہ), زنانہ مڈل اسکول، زنانہ پرائمری اسکول، تین مردانہ پرائمیری اسکول، آغاخان زچہ بچہ سنٹر، مائیکرو فنانس بنک کی شاخ، برانچ پوسٹ آفس، ویلیج کونسل کا دفتر ، شیعہ امامی اسمعیلی لوکل کونسل کا دفتر اور ایک پرائیویٹ ڈگری کالج ( قائداعظم ماڈل ڈگری کالج  اینڈکمپئیوٹر سنٹر)، منی ہائیڈل پاور ہاوس پاور کا پری پیڈ بجلی کارڈ وڈنڈگ آفس، گورنمنٹ ڈسپنسری کی (خالی) عمارت (جو عرصہ پانج سالوں سے سٹاف کی منتظر ہے) اور ریگولر بجلی کی سہولتیں موجود ہیں۔بانگ ندی سے جنوب مغربی حصہ موڑی بانگ یعنی پائین بانگ اور شمال مشرقی حصہ توری بانگ یعنی بانگ بالا کہلاتا ہے۔ اس گاوں کے اندر لعل اباد، علی اباد اور بیرزوز کی نئی چھوٹی بستیاں بھی شامل ہیں۔ یہاں سیاحوں کی سہولت کیلیے ایک پرائیویٹ گیسٹ ہاوس بھی تعمیر کے آخری مرحلے میں ہے۔
کھوار میں لفظ گول بڑی وادی کے اندر دائیں اور بائیں جانب پہاڑی سلسلوں کے اندر قائم چھوٹی وادیوں اور گھاٹیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔  ان گھاٹیوں سے نکلنے  والا پانی گولوغ کہلاتا ہے یعنی ندی۔  یہ وادیاں گرمائی چراگاہ اور عام شکار گاہ کے طور پر مقامی آبادی کے زیر استعمال رہی ہیں۔ پہلے زمانے میں یہ خاص خاص قومیتوں کی ملکیت تھیں۔  بانگ گول بھی ایک مشہور چراگاہ اور شکارگاہ ہونے کے علاوہ وادئ تورکھو کے ساتھ رابطے کا ایک درہ بھی ہے جہاں سے گاوں ریچ اور کھوت  کو ماہ جون تا نومبر پیدل یا گھوڑے پر سوار ہوکر سفر کیا جاتا رہا ہے اور یہ بہت دلکش ٹریکنگ اور پکنک سپاٹ بھی ہے۔
گرمائی چراگاہوں کے اندر جھونپڑی نما رہائشی مکانات اور میوشی خانے ہوتے ہیں جنہیں غاری بولا جاتا ہے ۔ لفظ غاری شاید "غار" سے نکلا ہے کیونکہ قدیم زمانے میں چرواہے جو عام طور پر پندرہ بیس  گھرانوں پر مشتمل ہوتے تھے (جو پورے گاوں کے مال مویشوں کو اپس میں تقسیم کرکے دیکھبال کیا کرتے تھے اور ہر گھرانے کی دودھ دینے والی بکریوں اور گائیوں کے دودھ سے مکھن اور پنیر بناکر واپسی پر مالکان کے گھر پہنچاتے تھے) اور شکاری پہاڑی غاروں میں رہا کرتے تھے پھر مکان بناکر گرمی ڈھائی تین مہینے  اپنے مال میوشیوں کے ساتھ غاری میں گزارنے لگے۔ پہاڑی بکروں کا شکار جب آزاد تھا تو شکاری بھی ان جھونپڑیوں میں رات گزارتے تھے۔ آج کل چوری کا زمانہ ہے تو شکاری کھلے گھومتے نظر نہیں آتے۔
بانگ گول کے اندر کئی غاری ہیں۔ کݰین دور، اونڈور گوݯ، کݰمانجا، اشپوٹ گاز، یوزو ڈوک، څریرہ، گراگار، شابنگ اور میرژ وریان کھار بانگ گول کے غاری ہیں۔ ان میں یوزو ڈوک اور گراگار زیادہ مشہور ہیں۔  بانگ گاؤں سے یوزو ڈوک تین گھنٹے اور گراگار ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
جس چوری کا کھوج والد محترم نے لگایا تھا وہ گراگار میں واقع ہوا تھا۔ یہ چوری گھی کے ذخیرہ کی ہوئی تھی۔ پہلے وقتوں میں جب لوگوں کی زندگی کا دارومدار کھیتی باری اور گلہ بانی پر تھا تو گھی کا ذخیرہ کرنے کے لیے زیر زمین خفیہ گڑھے بنائے جاتے تھےجو چشموں اور ندیوں کے آس پاس کی نمدار جگہوں میں ہوتے تھے۔ ان کو " دونینی" کہا جاتا تھا۔ گراگار میں مقیم دولت بابا جو ہمارے پڑوسی اور غاری میں مال مویشیوں  کے رکھوالے بھی تھے، کے ایسے ہی خفیہ  دونینی سے رات کے اندھیرے میں کوئی بیس پچیس سیر گھی چوری ہوا تھا۔ والد صاحب شکار سے واپسی پر جب گراگار پہنچے تو   دولت بابا  نے  یہ واقعہ انہیں بتایا اور تحقیقات کی درخواست کی۔ والد صاحب گاوں کی کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔
میرے ابا نے  جائے وقوعہ کا معائینہ کیا اور چور کے پاؤں کے نشانات ٹریس کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی نشان نہیں ملا۔ پھر اس نے گراگار سے باہر جانے والی گزرگاہوں کا معائینہ کیا تو ایک جگہہ مٹی پر ننگے پاؤں کے نشانات یوزاڈوک کی طرف آتے ہوئے ملے۔ بابا نے درخت کی شاخ سے ان کی پیمائش کراکے اپنے پاس رکھی اور دولت بابا کولے کر یوزو ڈوک پہنچا۔ بابا نے ایک اور چیز بھی نوٹ کیا تھا۔ نشان دایاں پیر کا تھا اور نشان کے آر پار  لکیر سی تھی۔ اب گھر گھر جاکر سب کے پاؤں تو نہیں ناپ سکتے تھے اور دیکھے جاسکتے تھے۔ اس لیے  دولت بابا سے پوچھا کہ ' آپ کو کس پر زیادہ شک ہے؟' دولت بابا نے ایک عورت پر شک کا اظہار کیا۔ میرے بابا اس مشکوک عورت کی جھونپڑی میں اکیلا داخل ہوا اور علیک سلیک کے بعد چائے بنانے کی فرمائش کی۔ اس دوران دیکھا کہ عورت کے پیر ننگے ہیں۔ ان سے ہوچھا ' بیٹی تمہارے پاس جوتیاں نہیں ہیں کیا؟'  اس نے بتایا کہ اس کے پاس جوتیاں نہیں ہیں۔ تو بابا نے از راہ ہمدردی کہا، ' بیٹی! ذرا اپنا دایاں پاوں اس لکڑی سے ناپو تاکہ میں تمہارے لیے جوتیاں بنوا بھیجوں کیونکہ ننگے پاوں تم غاری میں کیسے گزارہ کرسکتی ہو' اس زمانے میں مقامی کاریگر چمڑے کی جوتیاں تیار کیا کرتے تھے۔ وہ عورت خوش ہوئی اور اسی شاخ سے اپنا وہی پاوں ناپا جو
بابا کو مطلوب تھا۔ اس دوران بابا نے اس عورت کے پاوں کے نیچلا حصہ دیکھنے میں کامیاب  ہوا جہاں اسے درمیان سے پھٹا ہوا نظر آیا۔ اب انہیں تسلی ہوگئی کہ چوری اسی عورت نے کی تھی تاہم بابا اس بات ہر حیران تھے کہ ایک اکیلی عورت رات کو تین گھنٹے خطرناک پہاڑی سفر کرکے چوری کیسے کرسکتی تھی؟ جب اس عورت پر دباؤ ڈالا گیا تو اس نے چوری کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ مسروقہ گھی بھی لاکر دولت بابا کے حوالے کیا۔  یہ تھی میرے لکھت پڑھت سے ناواقف والد محترم کی ذہانت جو ایک مشکل چوری کا کھوج لگایا تھا اور پولیس کو ملوث کیے بغیر ایک دن کے اندر چوری شدہ مال بھی برآمد کرایا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی