آذربائجان چلیں ۔۔۔7


آذربائجان ۔۔۔7
میری ٹوپی (کھپوڑ) میری شناخت بن گئی۔
میں جب بھی باہر ملکوں میں جاتا ہوں میری چترالی ٹوپی ساتھ ہوتی ہے اور عموماً پہنے ہی رکھتا ہوں سوائے زیادہ گرم موسم کے۔ باکو میں موسم چترال جتنا سرد تھا اس لیے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ پہلے دن جب ہم پرانے شہر دیکھنے نکلے تو ایک آذربائیجانی صاحب نے سلام کے ساتھ میری ٹوپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان، پاکستان کہا۔ میں نے سلام کا جواب دیا، مصافحہ کیا اور سر کو ہاں میں جنبش دی اور زبان سے تصدیق کی کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اس کے بعد جگہہ جگہہ میری ٹوپی دیکھ کر ہماری پاکستانی شہریت کو بغیر تعارف کے جان لیا گیا۔ میرے ملک کے چھوٹے سے حصے کی ثقافت سے وطن کی شناخت  مجھے بہت اچھی لگی اور فخر محسوس ہوا۔ کیونکہ آج سے پچاس سال پہلے میرے اپنے صوبے کے لوگ بھی چترال سے نابلد تھے۔ آج چترالی ٹوپی چترال کی نہیں بلکہ پاکستان کی پہچان بن گئی ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ ثقافت قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ یہ سارا کریڈٹ ہمارے پشاور کے اسلام آباد بازار کے ان کاروباری اہل فن کو جاتا ہے جو گزشتہ چھ سات دھائیوں سے یہاں چترالی ٹوپی اور پٹی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہی اپنی روایتی ٹوپی کو سارے ملک اور ملک سے باہر متعارف کرایا اور اسے مقبولیت دی ورنہ اہل چترال آج تک اپنا یہ خوبصورت سرپوش بھول چکے ہوتے۔
شہر باکو کی سیر کا آغاز پرانی عمارتوں کو دیکھنے سے کیا۔ سب سے پہلے یہاں کا قدیم محل دیکھنے گئے۔
محل شروان شاہاں:
فارسی میں کاخ شروان شاہاں اور آذربائیجانی میں "شروان شاہلاری سرائ' کہلاتا ہے۔ قدیم  قفقاز کا جنوبی حصہ شروان کہلاتا تھا جس پر شروان شاہ خاندان نے کوئی سات سو برس تک کبھی خودمختار اور کبھی ماتحت حیثیت سے حکومت کی۔ پندرھویں صدی کے شروع میں تباہ کن زلزلے نے ان کا پرانا صدر مقام شامخ کو تباہ کیا جو شمال میں واقع تھا تو انہوں نے اپنا دارالسلطنت باکو منتقل کیا اور اس محل کی تعمیر شروع کی۔ یہ شروان شاہ خلیل اول کا زمانہ تھا۔ محل کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا تھا یہ معلوم نہیں البتہ محل کے اندر شاہی مسجد کے مینار اور ایک درویش کی قبر پر لکھی تاریخوں کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ پندرھویں صدی کے ربع دوئم میں تعمیر ہوا تھا۔ یہ کوئی بڑا محل نہیں ہے۔ اس کے اندر شاہاں کی رہائش گاہ، دیوان خانہ اور چند دوسرے کمرے ہیں۔ اس کے احاطے کے اندر مسجد ہے جس کی تعمیر 845 ہجری ہے گو کہ ہجری کا لفظ یا حرف ھ مرقوم نہیں ہے۔ تاہم محققین اسے ہجری لیتے ہیں اور عیسوی کے سال 1441- 42 بتاتے ہیں۔ اسی طرح ایک درویش سید یحییٰ باکوئ جو شاہوں کے ماہر فلکیات اور صوفی بزرگ تھے کی مرقد پر 839 لکھا ہوا ہے جو عیسوی کلینڈر کے مطابق 1435-36 کا سن بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ محل کی سب سے نیچلی منزل میں شروان شاہ خلیل اول اور اس کے اہل و عیال کے تابوت محفوظ ہیں۔ محل کے اثاثے میں ایک حمام بھی تھا جس کے کھنڈرات موجود ہیں۔  محل کے اردگرد چار دیواری ناپید ہو چکی ہے۔
محل کے اندر دیوان خانے کے تخت کی نقل بعد میں تیار کرکے بچھا گیا ہے۔ چند زیوارات، خنجر اور تلواریں اس محل کی کل کائینات ہیں۔ کہتے ہیں کہ فاتحین نے یہاں کا سارا سامان اور نوادرات اٹھا کر لے گئے تھے۔
1501 میں ایران کے صفویوں نے آذر بائیجان پر حملہ کیا اور باکو شہر کو فتح کیا۔ شروان شاہ مارا گیا اور محل کو تباہ کیا گیا۔ 1578 میں عثمانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ دو دھائی بعد پھر ایران نے اس پر قبضہ کیا۔ 1906  میں روسیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ بیسویں صدی کی دوسری دھائی میں صرف دو سال کے لیے آذر بائیجان مکمل طور پر آزاد جمہوریہ بنا۔ پھر 1920 میں سویٹ سوشلسٹ یونین روس کا حصہ بنا۔ 1991 میں یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔
شروان شاہاں محل سولہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک کھنڈرات کی صورت میں زندہ رہا۔ روسیوں نے اس کی تھوڑی مرمت کرکے فوجی گدام بنایا تھا۔ آذربائیجان کے روس اتحاد میں شامل ہوتے ہی اس محل کی بحالی کا آغاز ہوا۔ 1964 میں حکومت نے اسے عجائب گھر قرار دیا اور اپنی تحویل میں لے لیا۔ 2000 میں یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل کر لیا۔  (جاری)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی