آذربائیجان۔۔۔۔۔6


میڈن ٹاور:یہ مینار بھی بارھویں صدی کا ہے اور یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل ہے۔ یہ پکی اینٹوں کی گول عمارت ہے جس کے اندر پھتروں کی سیڑھیاں بنی ہیں۔ مناسب اونچائیوں پر عمودی روشندان موجود ہیں جہاں سے باہر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مینار کے اندر آٹھ منزلیں ہیں جن میں سے تین چار کے اندر چند پرانی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ مینار کے اندر کمرے بعد میں بنائے گئے ہیں۔ ان کی ساخت بھی بتاتی ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہیں۔ اس کی ابتدائی ساخت شروع میں فرش سے بام تک کھلا تھا۔ مینار کی اونچائی 97 فٹ ہے جب کہ چڑھنے کے لیے 127 پھتر کی سیڑھیاں ہیں جو ایک سرنگ کے اندر لگی ہیں اور صرف ایک آدمی ایک وقت گزر سکتا ہے۔اس کی چھت سے پرانے شہر اور کیسپین سمندر کا خوب بصری سیر کی جا سکتی ہے۔
اس مینار کی تعمیر کا مقصد آج تک پوری طرح معلوم نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دفاعی مینار تھا اور کوئی زرتشتیوں کی مندر  بتاتا ہے۔ بعض محققین اس کی بنیاد کو چھٹی اور ساتویں قبل مسیح بتاتے ہیں جو پندرہ میٹر زمین کے اندر ہیں۔ اس مینار کے قریب قدیم گرجا گھر اور ایک پرانی مسجد کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔
مسجد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
یہ تاریخی مسجد باکو کی سب سے پرانی مسجد ہے جو 79-1078 میں تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کے اندر نہیں جا سکا کیونکہ دروازہ مقفل تھا۔ باہر سے اس کے مینار اور بیرونی دیواروں کو دیکھ سکا اور تصویریں بنائیں۔
ایچَری شہر کی جمعہ مسجد خوبصورت ہے جو پندرھویں صدی کی تعمیر ہے۔ انیسویں صدی میں اس کی دوسری مرتبہ تعمیر ہوئی تھی۔ اس مسجد کو اندر سے بھی دیکھ پایا۔ ان تاریخی آثار کے علاؤہ اس شہر کی دکانیں، ہوٹلیں اور رہائشی مکانات سارے اپنی قدامت کے لحاظ قابل دید ہیں۔ اس زمانے کے فن تعمیر کی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں۔
ایچَری شہر سے باہر نکلیں تو ایک نئی دنیا ملے گی۔ جدید طرز تعمیر کی بلند و بالا عمارتیں ، کھلی گلیاں اور کشادہ چار پانج لین والی سڑکیں، جگہہ جگہہ وسیع و عریض عوامی

 پارک، ہر پارک کے اندر نشست گاہیں، اچھلتے فوارے، پھولوں کی کیاریاں، ترتیب سے لگائے گئے سرو اور دوسرے خوبصورت درخت، غرض ہر چیز حسن و خوبی سے مالا مال نظر آتی ہے۔ قدیم شہر کی چار دیواری سے باہر بے تحاشا پھیلتی آبادیوں کو "بیار شہر"یعنی بیرونی شہر بولتے ہیں۔ شہر باکو آذربائیجان کا صدر مقام ہے اس لیے پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں کی عمارتیں اس بیرونی شہر میں واقع  ہیں۔ یہاں کی جدید تعمیرات بھی فن تعمیر کی خوبصورت تصاویر پیش کرتی ہیں۔ دیدہ و دل کے لیے کشش کا سامان بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔  باہر شہر کی نئی عمارتوں میں حیدر علیوف میوزیم، شعلہ میناریں، پارلیمنٹ ہاوس، قالین میوزیم اور پانج ستاری ہوٹلیں قابل دید ہیں۔ ان کے عجیب و غریب دلکش  نقشے آذربائیجانی ماہرین تعمیرات کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 
حیدر علیوف ثقافتی مرکز: جسے حیدر علیوف میوزیم بھی کہتے ہیں۔ عجائب گھر کے اندر حیدر علیوف (2003-1923) کی زندگی اور آذربائیجانی کی تحریری،تصویری اور فلمی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی نچلی منزل میں چار کاریں محفوظ ہیں جو مختلف اوقات آذربائیجان کے اس مقبول رہنما کے زیر استعمال رہی ہیں۔ یہ عمارت  جدید فن تعمیر کا ایک عجوبہ ہے جسے معروف عراقی خاتون آرکیٹیکٹ زھا حدید نے ڈیزائین کیا تھا۔ زھا حدید وہ پہلی خاتون ماہر فن تعمیر ہے جس نے فن تعمیر میں درجنوں بین الاقوامی  ایوارڈز حاصل کیے۔ ان کا فن مروجہ فن تعمیر سے بہت منفرد اور الگ تھلگ شکل و صورت کا رہا ہے جس کی لفظی تصویر پیش کرنا کم از کم میرے بس میں نہیں ہے۔ یہ عمارت بھی اونچی جگہے پر قائم ہے۔ اس کے اردگرد ڈھلانوں پر دلپزیر سبزہ زار،  مصنوعی تالاب، آبشاریں اور فوارے ہیں۔ اس عمارت کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے اس لیے تصاویر پر اکتفا کرتا ہوں۔ قارئین خود دیکھ لیں گے اور لطف اندوز ہوں گے۔

فلیم ٹاورز : آذربائیجانی میں "الوف قُلَلری".  یہ تین مینار جنہیں میں نے شعلہ میناریں لکھا ہے، شہر کے مغرب کی طرف ٹیلے پر بنائے گئے ہیں جن کی شکل و صورت لپکتے شعلوں کی سی ہے۔ سب سے اونچے مینار کی اونچائی597فٹ، دوسرے کی 541 فٹ اور تیسرے کی بلندی 528 فٹ ہے۔  شعلہ نما بنانے کا مقصد آگ کے عنصر کو اجاگر کرنا ہے۔ آذربائیجان کا ایک نام "آگ کی زمین"  بھی رہا ہے۔ زیر زمین گیس کے اخراج سے آگ پکڑنے والی زمینوں اور پہاڑیوں کے حوالے سے اسے زمین آتشین بھی کہا جاتا ہے۔ ان میناروں کے اندر 130 رہائشی مکانات، ایک 250 کمروں کا پانج ستاری ہوٹل اور 61 دفترات ہیں۔ رات کو ان میناروں کا نظارہ دل لبھانے والا ہے کیونکہ بجلی کے رنگین بلبوں کو کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ جس میں آذربائیجان کا سہ رنگہ جھنڈا لہراتا ہوا شخص کی شبیہہ نظر آتی ہے اور جو مسلسل متحرک رہتی ہے۔ دبئی میں دنیا کی سب سے اونچی مینار نما عمارت "برج خلیفہ" ہے جہاں رات کو بجلی کے بہت سے رنگین روشنیوں کا تماشا دیکھا جا سکتا ہے۔ باکو شہر میں ہماری رہائش گاہ کے قریبی سڑک سے ان شعلہ نما میناروں کا نظارہ بڑا دلفریب ہے۔


  کارپٹ میوزیم: (قالینوں کا عجائب گھر)  یہ عمارت ایک ایسی شکل میں بنائی گئی ہے جو دور سے گول لپٹا ہوا قالین جیسے نظر آتی ہے۔ یہاں آذربائیجانی کے مختلف ادوار کے بیش بہا قالینوں کا سب سے بڑا ذخیرہ محفوظ ہے اور قالین سازی کی تاریخ عہد بہ عہد دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح مِنی وینس پارک میں قائم ایک شاندار ہوٹل پھول نظر آتا ہے۔ قریب جائیں تو ایک دیوہیکل پھول ہی لگتا ہے۔ منی وینس پارک میں کشتی رانی کے دو طرح کا انتظام موجود ہے۔ ایک وہ جو بڑی کشتی میں کیسپین سمندر میں کشتی رانی کا لطف اٹھانا  اور دوسرا پارک کے اندر سفید سنگ مرمر سے بنائی گئی ہوٹل کی عمارت کے گردا گرد تالاب کے اندر چھوٹی کشتیوں میں سیر کا مزہ لینا ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی