آذربائجان ۔۔۔۔8

 آتشی مندر سرخانی: آج 31 اکتوبر کو ہم باکو شہر سے باہر کی دنیا دیکھنے کا ارادہ کیا۔ موسم یخ بستہ تھا۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور سیدھا اس جگہہ پہنچے جسے انگریز  لوگ فائر ٹمپل اور ایرانی اور اذربائیجانی آتش گاہ کہتے ہیں۔ ایک اونچی چار دیواری جو قلعے کی دیوار لگتی ہے، کے اندر کشادہ صحن کے دو اطراف میں نوادرات کی دکانیں اور ایک ہوٹل بنائے گئے ہیں۔ دایاں ہاتھ میں ایک طرف ایک دوسری ایک قلعہ نما پانج دیواری عمارت کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ یہ عمارت آتش گاہ ہے جس کے دروازے پر کتبے تو لگے تھے جو ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ اس مخمس دیواری عمارت کی اندرونی دیوار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے طاق نما کمرے، پست دروازوں کے ساتھ قدیم طرز کی تعمیر کی نظر آئے ۔ وسط میں ایک چبوترے پر کھڑی چار ستونی قربان گاہ  کے اندر تین فٹ اونچے دوسرے چبوترے کے اوپر آتشدان میں آگ جل رہی تھی۔ باہر بھی اس طرح کا آتش دان تھا جس کے کوئلوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ ہم نے قربان گاہ اور دیواروں کے ساتھ قطاروں میں بنے ان حجروں میں جھانکتے گئے۔ تنگ و تاریک کمرے تھے جن میں زرتشتی راہبوں اور ہندو سادھوؤں کے مجسمے نصب تھے جو مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ایک کمرے میں  گھوڑے، گدھے اور انسان کے مجسمے اس زمانے کی سواری اور باربرداری کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ میں مجسمہ سازوں کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ وہ زندہ چلتے پھرتے دکھتے تھے۔  مٹی کے پرانے برتن اور کچھ دوسری مذہبی اہمیت کی چیزیں نمائش کے لیے موجود تھے۔

 یہ مندر  سترھویں اور اٹھارویں صدیوں میں سکھوں، ہندوؤں اور آتش پرستوں کی عبادت گاہ تھا جو برصغیر پاک و ہند کے مغربی علاقوں سے تجارت کے لیے براستہ ء گرینڈ ٹرنک روڈ جو شاہی سڑک کے نام سے مشہور تھی  اس علاقے میں آتے تھے۔ باکو شہر میں ملتانی سرائے کے نام سے دو چار پرانی عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ جگہہ زرتشتیوں کا ایران اور ملحقہ علاقوں پر حکومت کے وقت سے ان کی زیارت گاہ ہے۔ دسویں صدی عیسوی کے سفر نامہ نگار اور جغرافیہ دان ابو اسحاق ابراہیم ابن محمد الفارسی الاستخری نے  دسویں صدی کے نصف اول میں عباسی دور میں قفقاز کا دورہ کیا تھا۔ ان کے مطابق  اس وقت ابشرون میں زرتشتی موجود تھے۔

  مندر کے احاطے میں قدرتی طور پر زمین سے نکلنے والی گیس سے آگ روشن رہتی تھی جو بعد ازاں مندر کے اردگرد تیل اور گیس کے لیے کھدائی کے نتیجے میں 1969 میں بجھ گئی۔ اس وقت باہر سے پائیپ کے ذریعے گیس ان آتش دانوں کو مہیا کی جاتی ہے۔ 1883 کے بعد یہاں عبادت کا سلسلہ منقطع ہوا۔ ۔ 1975 میں اس مندر کو تاریخی، ثقافتی فن تعمیر کا اثاثہ قرار دیا گیا۔ 1998 میں مندر کو ورلڈ ہیریٹیج سائٹس کی لسٹ میں شامل کرنے لیے نامزد کیا گیا اور 2007 میں آذربائیجانی حکومت نے اسے تاریخی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ یہ آتش گاہ  باکو شہر کی نواح میں جزیرہ نما ابشرون کے سرخانی نام کے قصبے میں واقع  ہے۔ سرخانی کا علاقہ اپنے اندر تیل اور گیس کے بڑے ذخائر رکھتا ہے۔

جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی