تحریکِ نفاذ اردو پاکستان

 تحریک نفاذ اردو پاکستان ایک آئینی رضاکارانہ قومی تحریک ہے جس کی مرکزی قیادت عطاء الرحمن چوہان صاحب کر رہے ہیں۔ اس تحریک میں اپر چترال سے لے کر بلوچستان کے گوادر اور سندھ کے ٹھٹھہ تک کے محب وطن پاکستانی شامل ہیں جو نہ صرف اس تحریک کے لیے اپنا وقت دے رہے ہیں بلکہ تحریک کی ضروریات کے لیے عطیات بھی جمع رہے ہیں۔ ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ 

فرمودات قائد اعظم محمد علی جناح، آئین پاکستان کی شق 251 اور عدالت عظمٰی کے احکامات  پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہماری قومی زبان اردو کو عملی طور پر اس کی آئینی حیثیت دی جائے۔ یعنی اردو ہمارے قومی اداروں کی تقریری اور تحریری زبان ہو۔ عدالت، پارلیمان، انتظامیہ، افواج پاکستان اور ملک کے اندر کاروبار کی زبان ہو۔ سول سروس کے امتحانات اردو میں لیے جائیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں اس کی لازمی حیثیت کو ختم کرکے اسے ایک غیر لازمی اختیاری مضمون قرار دیا جائے تاکہ انگریزی کے ساتھ دلچسپی نہ رکھنے والے بچے اس زبان کے غیر ضروری بوجھ سے چھٹکارا پا سکیں۔ شائقین انگش کے لیے اس کی اختیاری حیثیت میں موجود رہنا کافی ہے۔


یہ ایک صاف ستھرا آئینی مطالبہ ہے۔ یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ یہ تحریک انگریزی اور مادری اور علاقائی زبانوں کے خلاف کوئی سازش ہے۔ ہاں! جو لوگ انگریزی کی بلا جواز حمایت کر رہے ہیں اسے ملک و قوم کے خلاف سازش کہہ سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بولی جانے والی کم و بیش 74 زبانوں کو نہ صرف زندہ رکھا جائے بلکہ ان کو ترقی دے کر ابتدائی مدرسوں کے نصاب میں شامل کرکے ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے تاکہ نونہالان قوم اپنے سماج سے متعلق اور دوسرے بنیادی علوم اپنی مادری زبان میں حاصل کر سکیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ نیز ثانوی، اعلے ثانوی اور جامعات میں تمام ملکی زبانوں کو پڑھانے کا انتظام ہونا چاہیے۔ علاقائی زبانوں کے الفاظ اور محاوروں کو اردو میں شامل کرنا چاہیے تاکہ قومی زبان کا دامن مزید پھیلتا جائے اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کا ذخیرہ محفوظ ہوتا جائے۔ جس سے قومی اور مادری زبانوں میں قربت فروع پائے گی اور اجنبیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اہل پاکستان کا آپس میں تبادلہ خیالات کا واحد ذریعہ اردو ہی ہے۔ پختون، چترالی، گلگتی، بلتی، کشمیری، ہزاروی، سرائیکی، بلوچی، پنجابی، سندھی وغیرہ اہل زبان آپس میں گفتگو اردو ہی میں کرتے ہیں کسی بدیشی زبان میں نہیں۔ گویا اردو ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے جوڑنے والی زبان ہے۔

یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ہمارے دینی علوم کا سارا خزانہ اردو میں منتقل ہو چکا ہے اور اردو کے اندر فارسی اور عربی الفاظ و مرکبات سب سے زیادہ شامل ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس لیے اپنے دین کو سمجھنے کے لیے بھی اردو ہی واحد زبان ہے جو ہمارے لیے قابل فہم ہے۔

لہذا دین اور  دنیا دونوں کے لیے اردو زبان ہماری اولین ضرورت ہے۔

جہاں تک ہمارے اُن دانشوروں کی آراء کا تعلق ہے جن کے نزدیک اردو پڑھ کر ہم جدید دور کے علوم سے مستفید نہیں ہو سکتے، تو ان کے لیے ہمارے اسلاف اور ترقی یافتہ دنیا کے ان ممالک کی مثالیں کافی ہیں جو اپنی مادری اور علاقائی زبانوں کے ذریعے سائنسی اور تکنیکی دنیا میں محیر العقول کارنامے انجام دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں۔ تفصیل میں جانا وقت کا ضیاع ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے جدید سائنسی علوم کی بنیاد اپنی زبانوں میں ہی رکھی تھی۔ تاہم مسلمانوں کی نااہلی کے باعث یہ میراث دوسروں کے قبضے میں چلی گئی ہے۔



لہذا تحریک نفاذ اردو اپنی قومی زبان کو اس کی آئینی حیثیت دلانے کے لیے اپنی بھر پور جد و جہد جاری رکھے گی۔ امید کرتے ہیں کہ محب وطن پاکستانی اپنے ملک کی قومی زبان پر فخر کرتے ہوئے اس رضاکارانہ قومی تحریک میں شامل ہوں گے


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی