تین امتحانات

 ویسے دنیا میں سینکڑوں امتحانات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ دنیا سے رخصتی پر ایک اور اخری امتحان دینا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر انسان جنت اور دوزخ میں سے کسی ایک ٹھکانے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ آخری امتحان کی تشریح و تفہیم بھی طویل ہے کیونکہ ہر صاحب علم اپنی دانش کے مطابق امتحانی پرچے کا خاکہ کھینچتا ہے۔ پرچہ وہی ہوگا جو اللہ کا مرتب کردہ ہوگا جو ہم انسانوں کی رسائی سے بہت دور ہے جس طرح ان کا فرمان ہے " اس کے علم کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا البتہ جسے وہ چاہے"۔

دنیا میں مدرسہ، اسکول، کالج،یونیورسٹی، کمیشن وغیرہ کے امتحانات ہوتے ہیں۔ ان میں درجہ بندیاں کسی بندے کو کسی ایک نہ ایک درجے پر بٹھا سکتی ہیں اور وہ ان کی بنیاد پر کسی ڈگری یا عہدے وغیرہ کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ہم نے دنیاوی اور دینی علوم کے سارے امتحانات کو ایک امتحان قرار دیا ہے کیونکہ ان کا مقصد ایک ہے۔ ان کے علاؤہ ایک اور امتحان ہے جسے ہم تہذیب و تمدن کا امتحان کہہ سکتے ہیں۔ اس امتحان کا کوئی تحریری پرچہ نہیں ہوتا اور نہ کسی جدول کے مطابق زبانی امتحان لیا جاتا ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی میں اٹھنے بیٹھنے ، بول چال، لین دین وغیرہ معاشرتی اقدار کا مشاہدہ ہوتا ہے اور یہ امتحان ہمارے بزرگ لیتے رہتے ہیں۔ کسی معاشرے کی اقدار کا معیار اس معاشرے کے بزرگ ہوتے ہیں چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا نہ ہوں۔ ان بزرگوں کا یہ مشاہدتی اور مناظرتی امتحان نامعلوم انداز میں کافی لمبے عرصے تک چلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کون سا بچہ اس امتحان میں پاس ہے اور کون فیل۔ دنیا کے دوسرے امتحانات کے مقابلے میں روایتی سماجیات کا امتحان بہت اہم ہے، اس لیے معاشرے کے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ اس امتحان میں پاس ہونے کے امکانات بڑھ سکیں۔

Comments

  1. نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے ۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی