مے خوارِ حقیقت

مے خوار حقیقت 
(شیرولی خان اسیر)
بلبل ولی خان بلبل  کو ارضی چمن چھوڑے چالیس دن گزر گئے۔ ان چالیس دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں ان کی یاد نہ آئی ہو اور ان کا ذکر نہ ہوا ہو۔ جسمانی طور پر وہ ہم سے دور چلے گئے ہیں لیکن ان کے ساتھ بیتے لمحے تر و تازہ رہیں گے اور جب تک زندگی ہے بلبل کے نعموں کے الفاظ حس سماعت کو کیف و سرور پہنچاتے رہیں گے ۔
آج ان کی زندگی کے چند خفیہ رازوں کو زیب قرطاس کرنے کوشش کروں گا جو ان کی روحانیت کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور جو زندگی کے طویل سفر کے دوران میرے کمزور حافظے میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی خجالت نہیں ہو رہی کہ میں حافظے کے معاملے میں انتہائی کمزور واقع ہوا ہوں۔ اس لیے ان رازہائے نہاں سے تعلق رکھنے والی یادوں کو حرف بحرف لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا اور میں اپنی اس کوتاہی پر ان کے دوستوں اور پیاروں سے پیشگی معافی چاہتا ہوں۔
بلبل ولی خان سے ملاقات 1964 میں ہوئی جب میں نے سٹیٹ ہائی اسکول چترال کی نویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ ہم دونوں ایک ہی سیکشن میں تھے اور دونوں کے مضامین بھی ایک ہی تھے۔ دونوں آرٹس کے طالب العلم تھے اور فارسی ہمارے اختیاری مضامین میں شامل تھا۔ ہماری جماعت میں کوئی چالیس طلباء تھے البتہ فارسی پڑھنے والے ہم گنتی کے چند لڑکے تھے جن کا محور بلبل ولی خان بلبل تھا۔ بلبل کئی لحاظ سے ہمارے فارسی گروپ کی قیادت کی اہلیت رکھتا تھا۔ ایک یہ کہ وہ اب سے پہلے چترال میں پانج سال گزار چکے تھے اس لیے وہ ہم سے زیادہ چترال اور چترال کے لڑکوں کو جانتے تھے اور ان سے ان کی اچھی خاصی دوستی بھی تھی۔ چترال اور دیہات کے لڑکوں میں اختلافات ہوتے رہتے تھے۔ بلبل  ہمارے درمیان تعلقات کے پل تھے۔ ان کی دوسری فوقیت پسر استاد ہونا جب کہ فارسی پر ان کا غبور بھی کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ ایک تیز طرار، ظریف الطبع اور یارباش لڑکا تھا۔ اللہ مغفرت فرمائے استاد محترم عمر حیات کی جو ہمیں فارسی پڑھاتے تھے۔ فارسی کے لیے ہمارا کوئی علیحدہ کمرہ نہیں تھا اس لیے جھنڈے کا چبوترہ ہمارا کھلا کلاس روم ہوا کرتا تھا۔ جھنڈے کے چبوترے کی ڈیڑھ فٹ اونچی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ہماری نشست ایک ساتھ ہوتی اور اس پریڈ میں وہ کھسر پھسر جاری رکھتے اور ہمیں محظوظ کرتے رہتے جس کا استاد محترم بہت کم ہی نوٹس لیا کرتے کیونکہ استاد مرحوم تھوڑا اونچا سنتے تھے۔ چونکہ بلبل کو فارسی آتی تھی۔ غالباً دارالعلوم چترال کے کہنہ مشق اساتذہ سے سیکھ چکے تھے۔ اس لیے فارسی کی تدریس سے انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ استاد عمر صاحب چھٹی پر ہو تو ہم باقاعدہ ترنم کے ساتھ نصابی کتاب میں شامل نظموں کو گاتے رہتے، خاص کرکے امیر خسرو دہلوی کا یہ صوفیانہ کلام ورد زبان رہتا گو کہ اس کلام  کے حقیقی مطلب سے ہم ابھی آشنا نہیں تھے۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
مجھے معلوم نہیں کہ رات کو میں جہاں تھا وہ کونسی جگہہ تھی۔ ہر طرف رقص بسمل کا منظر تھا۔
میٹرک کے بعد ہم کوئی چھ سات سال ایک دوسرے سے دور رہے البتہ سلام دعاء کسی نہ کسی واسطے سے جاری رہا۔ جب بلبل محکمہ تعلیم میں استاد بن آ گئے اور تعلیم کے ضلعی دفتر میں عارضی کلرک کی ڈیوٹی پر مقرر کئے گئے  تو پھر سے ہماری ملاقاتیں اور نشستیں ہونے لگیں۔ شاہی مسجد چترال کے تہ خانے میں ان کے والد محترم کی رہائش گاہ تھی جہاں ہماری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ فارسی ادب کا ان کا مطالعہ بہت گہرا ہو چکا تھا۔ زیادہ گفتگو فارسی شعراء کے کلام پر ہی ہوا کرتی۔ ہم انہیں سننے پر اکتفا کرتے کیونکہ فارسی میں ہم مبتدی ہی تھے۔ ادب کے علاوہ بلبل کو ستار سننے کا بھی بڑا شوق اور ذوق تھا۔ ان کے پاس ایک ستار ہوا کرتا جسے میں اپنی مبتدی حیثیت میں بجاتا اور وہ گیت کے بول گنگنانے لگتے۔ رستم  اور بابا محمد سیر کے گیت انہیں بہت پسند تھے، خاص کرکے رستم کا یہ بند" تو میاں ثریا تہ نمین نو بوئے، تہ صفتان کوری اہیی تارین نو بوئے" (تم اوج ثریا میں ہو۔ تیرا نام لینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ تیری تعریف کی انتہا نہیں) اور  سیر رح کا " کورینین کوری بغئے مرزا مہ سیارو لوڑے یارے، سما گہت نشی شیر ٹھونہ مہ ستھارو لوڑے یارے" دیکھیے دوست! مرزا محمد سیار (عشق کے سفر میں)کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔  میرے ستھار کے سما (تاروں کا سر ملانے والی کلید) پر گرد پڑی ہے (کیونکہ عرصہ ہوا اسے ہاتھ نہیں لگایا ہے) کو بار بار گنگنایا کرتے اور کبھی کبھار وجد میں آکر ذرا اونچی آواز میں ایک دو بند گاتے بھی۔ ہم دوستوں کا خیال خام تھا کہ بلبل اس دنیا کے کسی پھول کو دل دے بیٹھے ہیں اور اسے حاصل نہیں کر پا رہے۔ انہیں کریدنے کی کوشش کرتے رہتے لیکن وہ ہمیں اپنی دلآویز مسکراہٹوں میں گندھی ظرافت کے ذریعے ہمیں بھٹکاتے رہتے۔ 
انجمن ترقی کھوار دروش کے ایک مشاعرے میں انہوں نے اپنی ایک مشہور غزل پڑھی۔ اس غزل کو بھی ہم دنیاوی محبوب کی تعریف پر محمول کیا تھا اور جو سراسر غلط خیال تھا۔ ان کی طویل ترین غزل کے چند اشعار قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرتا ہوں۔
الحمدللہ شکر کہ ہوئے بہ ہر حالو سوم
زلف دراز یارو  تاریر مہ چا کالو سوم
ہر حال میں رب کی ثناء اور شکر ادا ہو تو محبوب کی لمبی زلفوں (کا سایہ) کی رسائی مجھ جیسے کاہل تک (بھی) پہنچ سکتی ہیں۔
عزیز عمر ہوئے اہل قالو قیل و قالہ تونج
وا حسرتا! نشین کی بیسیر اہل حالو سوم
میری عزیز عمر اہل قال کے بحث و تکرار میں کھو گئی۔کاش! کسی ولی کامل کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوتا۔
اے کاش! بیروا علم خرابات کورا حاصل
کا اہیی گانیسیر و مدرسوں قیل و قالو سوم
ہائے افسوس! کہیں علم خرابات (حقیقت کا علم) حاصل ہوا ہوتا تو مدرسے کے قیل و قال میں کون پڑتا۔
تا ابد نو دوم تان ہردیا خور بتھانتے پون
پیمان اریتم روز ازل زوالجلاو سوم
میں اپنے دل میں دوسرے اصنام کو راستہ ہرگز نہیں دوں گا کیونکہ میں نے روز ازل سے اللہ زولجلال کے ساتھ عہد کیا ہوا ہے۔
بے غم بیلی دنیا و ما فیہار ای دربت
صحبتوں موقعہ اللہ کہ پرائے ہم خیالو سوم
 اگر اللہ پاک کسی ہم خیال کی صحبت عنایت فرمائےتو چند لمحوں کے لیے دنیا و مافیہا سے کنارہ کرنا چاہیے۔

بلبل صاحب کی قربت میں رہنے والوں میں ایک بڑا نام شافی شفا کا بھی ہے۔ انہوں نے بلبل کو انہماک سے سنا اور بہت سارا نایاب ذخیرہ اپنے حافظے کے سپرد کیا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ چند اشعار ان کی غزلوں سے چن کر بھیجے ہیں۔
اللہ کورار کہ تہ دی روئیتو دیار ہسے ژیندہ پوش
کمیاء ݰآ ݯھوتیو کوروئے کی نفس آریر
خدا کرے کہ وہ گدڑی والا تجھے بھی مل جائے۔ اس کی دعا کالی مٹی کو سونا بنا دیتی  ہے۔
دنیوتے ریتم جال بیناوا، اے نادان دنیا!
عنقا نو ݯکور میر شکھار کہ ہزار پھش اریر 
جب دنیا (مجھے پھانسنے کے لیے) میرے آگے جال بن رہی تھی تو میں نے کہا، اے نادان دنیا! عنقا پرندہ شکاری کے جال میں نہیں پھنستا چاہے وہ ہزار دفعہ جال کیوں نہ تیار کرے۔
یہ اشعار اور بہت سارے جو انہوں نے کہے ان کی دلی کیفیت کے ترجمان ہیں۔ اہل حال سے تھوڑی واقفیت رکھنے والوں کو اپنے بھید سے دور رکھنے کے لیے ہلکے پھلکے مزاح کا سہارا لیا کرتے تھے۔ 

مردان میں ہماری ملازمت کے دوران رمضان شریف کی ایک صبح میرے اپنے اسکول پہنچتے ہی ان کا فون آیا۔
کہنے لگے، " اے مالگیری تو ہنونو اخبارو ریتاوا؟" (یار!آپ نے آج کا اخبار پڑھا). میں نے نہیں میں جواب دیا تو کہنے لگے،" مردانو ای برار تان بوکو ماری، نیوہ مس بیرو ژورو زخمی کوری، اشٹوری "روجہ ماتیوت" مومندا تورتئے" (مردان کے ایک بھائی نے اپنی بیوی کو گولی مار کر، نو مہینے کی بچی کو زخمی کرکے بھاگ کر " افطار" کے لیے مہمند ایجنسی پہنچ گیا). ایک دوسری خبر یہ سنائی،" ایک بیٹے نے اپنی ماں کو قتل کرکے باہر میدان میں جاکر مرغا لڑا رہا تھا کہ پولیس نے پکڑ لیا۔ان اندوہناک خبروں پر بھی مجھے ہنسی آئی تھی کیونکہ ان کے انداز بیان میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کے اندر اس قسم کے مسلمانوں کی قبیح حرکات سے نفرت کا تیر ملفوف تھا۔ایسی مزاحیہ باتوں سے ہمیں محظوظ کرنے کے ساتھ اپنی حقیقت کو پوشیدہ رکھنے کا طریقہ ڈھونڈ رکھا تھا۔ 
ہر چھٹی کے دن کی پہلی شام ان کی میرے ہاں آمد ہوتی۔ ان کے پہنچتے ہی ان کے لیے اچھی چائے تیار ہونا ضروری تھا جو اکثر ان کی چائے نوشی کے معیار کی چائے نہ ہوتی جس کی اپنی بہن (میری بیگم) سے شکایت بھی کرتے۔ ایک دن جب وہ تشریف فرما تھے تو میری بیگم نے ان سے شکایت کی، " دیکھو بھائی! میں نے آپ کے بھائی کے لیے سوٹ کا کپڑا خریدا ہے لیکن یہ اسے بدرنگ کا کہہ رہے ہیں" یہ کہتے ہوئے کپڑا بلبل بھائی کو دکھایا۔ اس نے کپڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہا،" بھائی! یہ تو بہت اچھا کپڑا ہے" میں نے فوراً اعتراض کیا، "اس لیے اچھا کہہ رہے ہو کیونکہ تمہاری بہن نے خریدا ہے"۔ حسب معمول ان کے پاس جواب تیار تھا،"کیا میں نے کبھی اپنی بہن کی چائے کی تعریف بھی کی ہے؟" میری ہنسی نکل گئی اور بیگم صاحبہ روہانسی ہو کر رہ گئی۔
چائے پینے کے بعد اپنی بہن کو یاد دلایا کرتے،" دیکھو بہن جی! مجھے اور اپنے خاوند کو الگ کمرے میں الگ دسترخوان پر کھانا دیا کریں کیونکہ آپ کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم نہیں کھا سکتے۔ یہ کھاتے نہیں بلکہ ہڑپ کر لیتے ہیں اور ہمارے دانت کام نہیں کر رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکیں". اس لیے ہم الگ سے بیٹھ جاتے۔ ہمارا کھانا وہیں آتا۔ گھنٹوں آہستہ آہستہ کھاتے جاتے اور  گپ شپ بھی جاری رہتی۔ کھانے پینے سے فراغت کے بعد میں ان کو سنتا رہتا جب وہ شیراز کے بلبلوں کی چیدہ چیدہ غزلیں سناتے جاتے اور بیچ میں کسی پرانی دھن ستار پر چھیڑنے کی فرمائش بھی کیا کرتے۔ میری معمولی فنکاری گویا ان کے لیے سماع کا سامان مہیا کرتی اور وہ جھومتے جاتے۔
حافظ اور بیدل کے اشعار زیادہ سنایا کرتے۔ سعدی شیرازی، مولانا رومی اور شمس تبریزی سے منسوب دیوان کا اکثر و بیشتر اشعار انہیں ازبر تھے۔ عموماً
حافظ کے دیوان کی پہلی غزل سے محفل آرائی شروع کرتے۔
الا یا ایہا الساقی ادر کا سا و ناولہا
 کہ عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلہا 
 ہاں اے ساقی! بادہ لاؤ اور پلاتے رہیے کیونکہ ابتدا میں عشق آسان لگتا تھا لیکن بعد میں (مجھ پر)مشکلیں ٹوٹ پڑیں۔
 المنت للہ کہ در مے کدہ بازست 
 زان رو کہ مرا بر روئے او نیاز است
 اللہ کا شکر ہے کہ مے خانے کا دروازہ کھلا ہے کیونکہ مجھے ان (ساقی)کے سامنے اظہار نیاز مندی کرنا ہے۔
بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نہ خواہی یافت
کنار آب رکناباد گل گشت مصلی را
اے ساقی! جام کا دُرد (تلچھٹ) بھی پلا دیجیئے کیونکہ چشمہ رکن آباد کا کنارہ اور مصلی کا گل گشت جنت میں نہیں ملیں گے۔
ایک آدمی جس نے شراب کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور پھر بھی وہ اشعار گنگناتے رہے جس میں مے اور مے خواروں کا ذکر ہو تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ بندہ حق عشق حقیقی کا مےخوار ہے۔ ہمارے بلبل کسی دنیاوی چمن کے گل  و لالہ کے عاشق تھے اور نہ انگور کی بیٹی پر شفتہ تھے۔ ان کا محبوب ایک ہی تھا۔
سود و زیانو لوان مو دیور کیاغ کہ ہوئے بغائے
 سودا اریتم تان جو دنیو نون ایوالو سوم
( اے بلبل)نفع نقصان کی باتیں مت کیا کریں۔ جیسا ہوا گزر گیا۔  میں نے آج اپنے دونوں جہانوں کا سودا صرف ایک (ذات) کے ساتھ کیا ہے۔
اللہ پاک اس مرد قلندر کی روح کو قربت خاص عطاء فرمائے آمین! 

 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی