پاک روس قربت

کم و بیش چوہتر سال بعد پاکستانی قیادت کو ہوش آ ہی گیا کہ ہمارے حق میں اپنے پڑوسی طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا ہی بہتر ہے۔ گرچہ حسب مخالف چھوٹے بڑے مختلف تاویلات کے ساتھ وزیراعظم عمران خان صاحب کے دورہ روس کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت کو جھٹلانا دیر پا نہیں رہتا۔ عمران خان صاحب کی حکومت کی خارجہ پالیسی پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ہمارے ذہنوں کو روس کے خلاف زہریلی خوراک دی جاتی رہی تھی۔ یہاں تک میرے کانوں نے سنے اور میری آنکھوں نے پڑھیں کہ روس  خدا اور اس کو ماننے والی مخلوق کا دشمن نمبر ون ہے۔ روس کے اندر مذہب اور اخلاقیات کا نام و نشان نہیں ہے۔وہاں ماں، بہن، بیوی میں تمیز نہیں۔ وہاں بچے اپنے ماں باپ کو نہیں جانتے اور والدین اپنے بچوں کو۔ وہاں خاندانی نظام کا تصور ہی نہیں۔ وہاں چھوٹے بڑے ، مرد و زن ہر کسی کو محض دو وقت کی روٹی کے لیے سرکار کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔ الغرض ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ روس کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ کمیونزم کو ایک اژدھا بنا کر پیش کیا جاتا رہا اور ہمارے ذہنوں کو مکدر کیا جاتا رہا۔ روس کے خلاف افغانوں کی مدد بذریعہ جہاد کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں روس کی اس ڈراؤنی تصویر نے سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ اگر روس نے افغانستان میں اپنے پیر جما لیا تو اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔ ہمارے مذہبی حلقوں نے اس پروپیگنڈے کی خوب تشہیر کی اور دل و جان سے امریکہ کا ساتھ دیا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ چین کے ساتھ ہماری دیرینہ دوستی ہے حالانکہ وہاں بھی کمیونسٹ راج ہے۔
  روز اول سے پاکستان کو روس سے دور رکھنے کے پیچھے عام طور پر مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ کے خفیہ اداروں کے نادیدہ ہاتھ کام کرتے رہے تھے۔ پاکستان کی مغرب دوستی روس کو پسند نہیں تھی۔ ہم اہل پاکستان مغرب کے اشاروں پر محو رقصاں رہے تھے۔
روس کے ساتھ تعلقات کا بہتر نہ ہونا اور امریکہ دوستی نے ہمیں بڑا نقصان پہنچایا۔ اس لیے میری ناقص رائے میں عمران خان حکومت نے روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ باہمی مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک ہی براعظم کے ممالک کا باہمی بہتر تعلق ان تمام ملکوں
کے حق میں سود مند ہوگا۔ موجودہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں عمران خان صاحب کا دورہ روس مغربی ممالک کے ممالک کو ہر گز نہیں بھائے گا۔ ہمیں امریکہ کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ جنہیں برداشت کرنی  ہوگی۔ ہمیں بھارت کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔ ایشیائی ممالک کی بھلائی پر امن بقائے باہمی کے ماحول سے وابستہ ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی